ان سے دل میں نور اور تازگی پیدا ہوتتی ہے اور ان نئی نئی حکایات سے ظلمت بڑھتی ہے ۔وعظ تو وہی ہے جس میں بدعت نہ ہو اور یہ نئی باتیںتو بدعت ہیں۔
غلو فی الدین
حلال روزی طلب کرنے کے متعلق ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو حلال کی طلب تھی ۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ آج کل حلال روزی ایک شخص کے پاس ہے جو بصرہ میں رہتا ہے ۔اس کے سوا حلال روزی یقینی طور پر کسی کی نہیں ۔چنانچہ وہ بصرہ پہنچا اور ان بزرگ سے ملا اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا کہ میں آپ کے پاس آیا ہوں ۔ میں نے سنا ہے کہ آپ کی روزی بالکل حلال ہے جس میں کوی شبہ نہیں ۔وہ بزرگ یہ سن کر رونے لگے اور کہا کہ اب تک تو میری روزی بلا شبہ حلال تھی لیکن اب نہیں رہی کیونکہمیرے بیل ایک شخص کے کھیت میں گھس گئے تھے ۔اس کے کھیت کی مٹی ان کے پیروں کو لگ گئی اور وہ مٹی میرے کھیت میں مل گی ۔اب مجھے شبہ پیدا ہوگیا ۔
سو یہ حکایت قواعد شریعت کے بالکل ہی خلاف ہے کیونکہ جتنی متی بیلوں کے پیروں کو لگی ہوگی وہ کوء متقوم چیز نہیں جس سے شبہ پیدا ہو سکے یہ محض غلو فی الدین ہے ۔فقہانے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دانہ گیہوں کی تعریف کرے یعنی لوگوں سے پوچھتا پھرے کہ یہ دانہ کس کا ہے ؟ تو حکم وقت کو چاہئے کہ اس شخص کو سزئے تعزیر دے کیونکہ ایک دانہ متقوم نہیں ہے جس کی تعریف کی جائے تو یہ شخص حدود شریعت سے تجاوز کرتا ہے ۔غرض یہ حکایت سراسر خلاف شریعت ہے ۔مگر واعظین اس کوبڑے زور شور کے ساتھ بیان کرتے ہیںاور سننے والے بھی اس پر سبحان اﷲ کہتے ہیں اور وجد کرتے ہیں مگر ان حکایات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ حلال روزی بہت دشوار ہے جو ہم کو نصیب نہیں ہوسکتی ۔اس لیے وہ طلب حلال سے ہمت دیتے ہیں۔حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب کے ایک خادم تھے ۔مولانا ان کے لیے کوئی کھانا بھیج دیتے ۔تو انہوں نے ایک بار عرض کیا کہ حضرت آپ تحقیق بھی کر لیتے ہیں کہ حلال ہے یا حرام؟ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ارے بھوکوں مرجائے گا ،بڑا حلال کھانے والا آیا ۔جا کھالیاکر ، جب ہمیں ایک مسلمان نے ہدیہ دیا اور ہم کو اس کی آمدنی کا حال معلوم نہیں تو مسلمان پر ہم کو بدگمانی کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی آمدنی حرام ہوگی ۔
گنگوہ میں حضرت مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک شاہ صاحب مہمان ہوئے جو حلال روزی کھانے کا دعویٰ کرتے تھے اور بہت تفتیش کرتے تھے ۔حضرت کے یہاں سے ان کے لیے کھانان آیا تو واپس کردیا اور کہا میں خالص حلال کھاتا ہوں مشتبہ مال نہیں کھاتا اور مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ کھانا کیسا ہے ؟ یہ کہہ کر وہ اپنے دل میں اس کے منتظر ہوئے ہوں گے کہ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ خود آکر اس کھانے کی حقیقت بیان کریں گے کہ یہ کھانا اس قسم کی امدنی سے تیار ہوا