بیٹھ جاتی چنانچہ اس مکھی نے ریچھ کو تنگ کردیا ۔وہ بار بار اڑاتا تھک گیا مگر وہ پھر آموجود ہوتی تھی یہاں تک کہ ریچھ کو غصہ آگیا اور اس نے پنکھا ڈال کر ایک بڑا سا پتھر تلاش کیا کہ اب کے اگر یہ مکھی آوے گی تو میں اس پتھر سے اس ک ومار ڈالوںگا ۔ چنانچہ وہ مکھی آئی اور ریچھ نے تاک کر ایک بڑا سا پتھر آقا کی ناک پر مارا ۔مکھی تو نہ معلوم مری یا نہیں مگر آقا کا دماغ کا بھرتہ ہوگیا۔
جس طرح اس ریچھ نے اپنے نزدیک تو آقا کی خدمت ہی کی تھی اور اس کا ارادہ موذی کو مارنے کا تھا ۔اس نے آقا کو ہلاک کرنا نہ چاہا تھا مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ دوستی حقیقت میں آقا کے ساتھ دشمنی تھی ۔ اسی طرح آج کل ہمارے یہ نادان بھائی شریعت کے ساتھ ریچھ کی سی دوستی کر رہے ہیں۔
عجب وکبر
اصل راز ایسے گستاخانہ سوالات کا یہ ہے کہ لوگوں میں آج کل عجب وکبر غالب ہے ۔انقیاد کا مادہ مفقود ہوتا جاتا ہے ۔اسی لیے احکام شرعیہ کو عبدیت کے طور پر ماننے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی ۔اور ایک احکام شرعیہ ہی میں کیا اس عدم انقیاد اور عجب وکبر کا مزاق ہر معاملہ میں جھلک رہا ہے ۔حتی کہ اگر کسی امر میں اپنی کوئی غلطی بھی محسوس ہوجاوے اور اور اس غلطی کے اعتراف کے لیے آمادہ بھی ایسا تجویز کیا ہے جس سے ذرہ برابر ندامت وتواضع نہیں معلوم ہوتی ۔بس چند الفاط ضابطہ دہر لینا کافی سمجھتے ہیں اور شان کی اس میں بھی حفاظت رکھی جاتی ہے ۔چنانچہ آج کل کی تہذیب میں معافی چاہنے کا ایسا ہی عجیب طریقہ مشاہد ہے ۔کسی کم بخت کا ان کے ہاتھ کیسا ہی نقصان ہوجائے بس اتنا کہہ کر چھوٹ گئے کہ میں نہایت افسوس کرتا ہوں کہ میری وجہ سے آپ کا نقصان ہوگیا ۔سبحان اﷲ ،کسی کے جوتے مار لیے اور یہ کہہ کر الگ ہوگئے کہ میں افسوس کرتا ہوں ۔
مجھے اس پر ایک حکایت یاد آئی ۔ایک شخص کی داڑھ میں درد تھا وہ ڈاکٹر کے پاس گئے کہ اس داڑھ کو نکال دو نہ معلوم ڈاکٹر سے کیا غلطی ہوئی کہ اس نے وہ داڑھ تو نہ نکالی اس کی بجائے ایک اچھ ی داڑھ نکال دی جس کے نکالتے ہی وہ شخص اندھا ہوگیا اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ کیا کیا ۔وہ بولے کہ میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھ سے گلطی ہوگئی ۔اس گریب کی تو آنکھ گئی اور انہوں نے افسوس کرکے بزعم خود اس کی تلافی بھی کردی ۔پھر غضب یہ کہ افسوس دل سے نہیں کرتے ان کا لہجہ افسوس میں بھی ایسا ہوتا ہے جس سے فرعونیت ٹپکتی ہے ۔
کانپور میں ایک طالب علم نے ایک مدرس کی شان میں گستاخی کی تھی ۔مقدمہ میرے پاس آیا میں نے اس سے کہا کہ استاد سے معافی مانگو ورنہ تم کو مدرسہ سے نکال دیا جائے گا۔وہ معافی چاہنے پر راضی ہوامگرمعا فی کی یہ صورت تھی کہ آپ دونوںہا تھ کمرکے پیچھے کرکے تن کرکھڑے ہوگئے اور زبان سے