، اس لیے ان کا تخیل صحیح اور کامل ہوتا ہے اور سحر کا مدار تخیل ہی پر ہے ۔اس لیے عورتوں کا سحر زیادہ قوی ہوتا ہے ۔اس لیے ’’النّفّٰثٰت فی العقد ‘‘میں عورتوں کی تخصیص کی گئی ۔
عجائب پرستی
یہود سحر حرام میں بہت مبتلا تھے ۔ان کی عورتیں بھی سحر جانتی تھیں چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر لبید کی بیٹیوں نے سحر کیا تھا ۔جہلا یہود تو سحر میں مبتلا تھے مگر علماء نے بجائے اس کے کہ اس کو حرام اور کفر کہتے اور عوام کو اس سے منع کرتے الٹا اس کو ہاروت وماروت کا علم بتا کر ایک آسمانی علم بنا دیا ۔یہ قاعدہ ہے کہ عالم جب بگڑتا ہے تو بہت دور جاتا ہے ۔عالم ہر چیز کو خدا ورسول تک پہنچا کر رہتا ہے ۔چنانچ اب بھی لوگ کہتے ہیں کہ دین تو علماء کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں موڑدیں ،جس چیز کو چاہیں حرام کردیں اور جس کو چاہیں حلال۔گویا ان کے قبضہ کی بات ہے ۔میں کہتا ہوں کہ عوام اگر ایسا کہیں تو ان کا کچھ قصور نہیں ۔واقعی بعض اہل علم ایسا ہی کرتے ہیں ۔
تو یہود کے علماء کی یہی حالت تھی ۔انہوں نے سحر کو ہاروت وماروت کا علم بتایا اور اس کے متعلق ایک عجیب قصہ زہرہ کا انہوں نے گھڑ لیا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہودی عجائب پرست تھے ۔لوگوں کو حیرت میں ڈالنے کے لیے نئے نئے انداز سے قصے گھڑتے تھے ۔تاکہ ذار مجلس میں رنگ آجاوے۔
چنانچہ آج کل یہی مذاق ہمارے واعظین کا ہے ۔یہ لوگ ایسا غضب کرتے ہیں کہ وعظ کا رنگ جمانے کے لیے بہت ہی بعید از عقل حکایات بیان کرتے ہیں ۔چونکہ عوام آج کل عجائب پرست زیادہ ہیں ، اس لیے ایسے واعظوں کو پسند کرتے ہیں بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ صاحب وعظ میں میں نئی نئی باتیں ہونی چاہئیں جو کبھی سنی بھی نہ ہوں ۔پرانی باتوں کو دہرانے سے لطف نہیں آتا ۔میں کہتا ہوں کہ بالکل غلط ہے ۔ لطف پرانی ہی باتوں میں ہے چاہے ان کو کتنی ہی بار بیان کیا جاوے مگر اس کا لطف اہل سالمت ہی کو حاصل ہوتا ہے جو تحقیق کے طالب ہیں اور عجائب پرست نہیں یہں ۔اور جن کی فطرت سلیمہ نہیں ان کو تو طلسم ہوش ربا میں لطف آئے گا ۔پرانی باتوں میں کیا لطف آئے گا۔
دیکھئے !قرآن کا طرز یہی ہے ۔اس میں بعض مضامین کو بار بار بیان کیا گیا ہے ۔موسیٰ علیہ السلام کا قصہ قرآن میں متعدد جگہ مذکور ہوا ہے مگر ہر جگہ نئے انداز اور نئے طرز سے بیان ہوا ہے ۔تو یہی طریقہ وعظ کا ہونا چاہئے کہ وہی پرانی باتیں مختلف طرز سے بیان کی جائیں ۔موقع کے مناسب مضامین ذکر کئے جائیں ۔ ان پرانی باتوں میں وہ لطف ہے جیسے کہا گیا ہے ؎
ہر چند پیر وخستہ وبس ناتواں شدم
ہر گہ نظر بروئے تو کردم جواں شدم