حق تعالیٰ نے عقلی وجہ فرق کوئی نہیں فرمائی بلکہ یہ فرق بیان فرمایا ۔
احل اﷲ البیع وحرم الربوا
کہ دونوں یکساں کیوں کر ہو سکتے ہیں بلکہ دونوں میں بڑا فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بیع اور تجارت کو تو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے اور حق تعالیٰ مالک ہیں ،انہیں اختیار ہے کہ جس چیز کو چاہیں حلال کردیں اور جس کو چاہیں حرام کر دیں ۔کسی کو وجہ دریافت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
علماء کو چاہئے کہ ایسے کے جواب مین قرآن کا طرز اختیار کیا کریں ۔عوام کا مذاق علماء نے بھی خراب کر دیا ہے کہ جب ان سے ایسے سوال کئے جاتے ہیں ۔تو وہ عوام کی مرضی کے موافق جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں سو یاد رکھو ! جو لوگ علتیں گھڑ کر بتلاتے ہیں ۔وہ شریعت کی جڑ کھوکھلی کرتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ جو علت وہ بتلادیں اس کو کوئی ذہین آدمی مخدوش کردے ۔اور جب اپ نے حرمت کا مدار اسی علت پر رکھا تھا تو اس کے مخدوش ہونے کے بعد حکم بھی مخدوش ہوجائے گا ،میں علماء کو وصیت کرتا ہوں کہ عوام کا ایسا اتباع نہ کریں کہ اس میں عوام کا بھی نقصان ہے اور علماء کا بھی اور شریعت کی بنیاد بھی کمزور ہوتی ہے بلکہ جب کوئی ان سے یہ پوچھے کہ فلاں کام کے حرام ہونے کی علت کیا ہے ۔تو صرف اتنا جواب دے دیا کریں کہ حق تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے یا حدیث مین اس کی ممانعت آئی ہے۔
اصول شریعت
بعض لوگ سوال میں یہ قید لگا دیتے ہیں کہ اس کا چبوت قرآن سے دیا جاوے اور علماء بھی خواہ مخواہ اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کو قرآن ہی سے ثابت کیا جائے ۔حالانکہ جب اصول شریعت چار ہیں ،کتاب وسنت وجامع امت وقیاس ۔تو ہر عالم کوحق ہے کہ وہ کسی مسئلہ کو قرآن سے ثابت کردے یا حدیث سے یا اجماع سے یا قیاس مجتہد سے ۔آخر تمام مسائل کو قرآن سے آپ کہاں تک ثابت کریں گے ؟ اگر تمام مسائل قرآن سے معلوم ہو سکتے تو پھر دوسرے حجج شرعیہ کی ہی کیوں ضرورت کیوں ہوتی ۔
بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قرآن میں ہر چیز ہے ۔یہاں تک کہ وہ ریل اور تار وغیرہ کا ثبوت بھی قرآن سے دینے لگے ۔ حالانکہ قرآن میں ہر چیز کے ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ،ورنہ پھر کپڑا بننے کی ترکیب مشینیں اور کلیں بنانے کا طریقہ بھی قرآن میں ہونا چاہئے ۔تو پھر قرآن کیا ہوا وہ تو صنعتوں کی کتاب ہوئی ۔بھلا اگر کوئی شخص طب اکبر میں جوتا سینے کی ترکیب دھونڈھنے لگے وہ احمق ہے یا نہیں ۔اور اگر طب اکبر میں ایسی ترکیبیں بھی لکھی ہوتیں تو اس کو طب کی کتاب ہرگز نہ کہتے ۔طب اکبر میں ایسی باتوں کا ہونا اس کے لیے کمال نہ ہوگا اسی طرح قرآن میں جو کہ طب روحانی کی کتاب ہے ایسی فضولیات کا ہونا اس کے لیے کمال نہ ہوگا بلکہ عیب ہوگا ۔