وہ شخص تیرہ روپے ایسے مال کے دے گیا جو مالک کے نزدیک ایک کوڑی کا بھی نہ تھا ۔
غرض ہر فن کی قدر کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کیسی قبل قدر چیز ہے ۔ پھر یہ تو دنیا کا علم تھا اور اس علم کا کیا پوچھنا جو کہ دین کا علم ہے جو کہ آخرت کا ساتھی اور رضائے حق کا وسیلہ ہے ؎
علم چوں پر دل زنی یارے شود
علم چوں پر تن زنی مارے شود
انتخاب طلباء
میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سب سے زیادہ علم سے بے فکر بڑے طبقہ کے لوگ ہیں حالانکہ خدا نے جو ان کو نعمتیں دیں ہیں ، اس کا شکر یہی تھا کہ یہ لوگ فارغ ہو کر علم دین میں تبحر حاصل کرتے اور اپنی اولاد کو عربی پڑھاتے ۔ صاحبو! جس طرھ مال میں زکوٰۃ ہے اسی طرح اولاد میں بھی زکوٰۃ ہے پس اولاد کی بھی زکوٰۃ نکالو مگر یہاں چالیس کا عدد نہیں ۔ آپ زکوٰۃ کا نام سن کر خوش ہوئے ہوںگے کہ پس چالیس لڑکے ہو جائیں گے اس وقت زکوٰۃ نکال دیں گے ۔ نہیں ، یہاں دو میں سے ایک کو زکوٰۃ میں نکالو ۔ اسے عربی پڑھاؤ مگر نہایت التجا کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ خدا کے لیے چھانٹ چھانٹ کر بے وقوفوں کو عربی کے لیے انتخاب نہ کرنا آج کل رؤسا اوّل تو اپنی اولاد کو عربی پڑھاتے ہی نہیں ۔ اور جو کوئی پڑھاتا بھی ہے تو لڑکوں میں جو سب سے زیادہ نکما بے وقوف ہو اسے عربی کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے اور ہوشیار لڑکوں کو انگریزی پڑھائی جاتی ہے ۔ جب کوئی دوست ان کے گھر آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ کے لڑکے کیا کیا پڑھتے ہیں ؟ تو سب سے پہلے انگریزی پڑھنے والوں کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ بی ، اے میں پڑھتا ہے ۔ یہ انٹرینس کے درجہ میں ہے یہ مڈل پاس کرنے والا ہے ۔ اخیر میں عربی پڑھنے والے کو پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ذرا ملّانی طبیعت کا احمق سا ہے اس کو عربی پڑھا دی ہے ۔ سبحان اﷲ! آپ نے دین کی خوب قدر کی ۔ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے علوم کی یہی قدر ہے ۔ خدا تعالیٰ کے کلام کی یہی عظمت ہے بھلا خدا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے علم کو سمجھنے والے یہی بے وقوف ہو سکتے ہیں جن کو آپ انتخاب کرتے ہیں ۔
اسی کا تویہ نتیجہ ہے کہ علماء کے اندر وہ بات آج نہیں ہے،جوان میں ہونی چاہئے تھی۔پھراس پرلوگ کہتے ہیں کہ آج کل غزالی اور رازی پیدا نہیں ہوتے میں کہتاہوں کہ تم یہ الزام کس کو دیتے ہو،ان بے وقوفوں کو غزالی اوررازی کون بنادے۔تم اپنی اولاد میں سے ذاہین لڑکوں کو عربی پڑھاؤ۔دیکھو وہ غزالی اور رازی بنتے ہیں یانہیں۔خداکی قسم غزالی اوررازی اب بھی ہوسکتے ہیں۔کیامولانامحمد قاسم رحمتہ اﷲعلیہ اورحضرت مولاناگنگوہی قدس سرہـ‘غزالی