زیادہ کامل ہے اور جو کچھ دوسروں میں ہے سب اسی کا عطا کیا ہوا ہے ؎
اے کہ صبرت نیست از فرزند
صبر چوں داری ز رب ذوالمنن
اے کہ صبرت نیست از دنیائے دوں
صبر چوںدار ز نعم الماہدوں
اور گو نفس محبت تو ہے مگر دوسروں کی محبت نے اسے مغلوب کر رکھا ہے اس لیے ناراضیِٔ حق کی گرانی کا ہم کو احساس نہیں ہوتا ۔جب آدمی کو سانپ دس لیتا ہے تو اس کو نیم کے پتے تلخ نہیں معلوم ہوتے ۔اسی طرح ہم کو دنیا کے سانپ نے ڈس رکھا ہے اس لیے ناراضیِٔ کی تلخی ہم کو محسوس نہیں ہوتی ۔بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہم کو رضائے الٰہی کا حلاوت ہی کا ادراک نہیں ہوا ،اس لیے ناراضی کی تلخی کا بھی احساس نہیں ہوتا
الاشیاء تعرف باضدادہا
یعنی ہر چیز کی حقیقت اس کی ضد سے معلوم ہوتی ہے حضرات اہل اﷲ کو رضاء الٰہی کی حلاوت معلوم ہوچکی ہے اس لئے وہ ناراضی کی تلخی کو بھی محسوس کرتے ہیں سالک کے دل میں تعلق مع اﷲ کی ایک حلاوت ہوتی ہے ۔ نسبت مع اﷲ کی وجہ سے ایک نور ان کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے جس کے فقدان سے ان کی یہ حالت ہوتی ہے ؎
بر دل سالک ہزاراں غم بود
گر ز باغ دل خلالے کم بود
جب ان کی قلبی کیفیت میں ذرا سی بھی کمی ہوتی ہے تو ان کیدل پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ۔دوسروں کو ناراضیٔ الٰہی کا احساس کیوں کر ہو ۔دل تو پہلے ہی سے کالا تو رہا ہے ۔دل میں تعلق مع اﷲ کا نور پیدا کرو ۔ اس وقت سمجھو گے کہ ناراضیٔ حق کی تلخی کیسی ہوتی ہے پھر خود بخود یہ مسئلہ سمجھ میں آجائے گا کہ واقعی اصل مضرت خدا کی ناراضی ہے اس کے سامنے دنیا کے منافع اور مضرتوں کی کچھ حقیقت نہیں ۔
حرمت کا مدار
چنانچہ اس مسئلہ کو قرآن شریف میں بہت صاف طور پر حل کر دیا گیا ہے ارشاد فرماتے ہیں۔
یسئلونک عن الخمر والمیسر ۔قل فیہما اثم کبیر ومنافع للناس واثمہما اکبر من نفعہما
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کی بابت سوال کرتے ہیں کہ یہ حلال ہیں یا حرام ۔آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں ایک گناہ (ہے مگر وہ )بڑا(گناہ) ہے اور لوگوں کے لیے منافع متعدد ہیں ۔سبحان اﷲ کیا پاکیزہ طرز کا جواب ہے ۔یعنی لوگوں کو شراب اور جوئے کی حرمت میں یہ وسوسہ ہوسکتا تھا کہ ان میں منافع دنیویہ بہت ہیں اس لیے ان کو حرام نہ کرنا چاہئے تو حق تعالیٰ اس شبہ کے اصل سے انکار