کے پاس جاہل رہنے کے لیے کوئی عذر نہیں گو عربی میں اور درس کے طور پر نہ سہی۔
امراء کی کوتاہی
البتہ جو یہ طبقہ متمول مالداروں کا ہے جن کو خدا نے ہر طرح سے دنیا کی فراغت عطا کی ہے کہ نہ ان کو ملازمت کی ضرورت ہے نہ کھانے پینے کا فکر ہے ۔ خدا کا دیا ہوا ان کے پاس سب کچھ ہے اور اتنا ہے کہ کئی پشتوں کے لیے کافی ہے ۔ ان کے ذمہ ضرور یہ حق ہے کہ یہ لوگ متبحر عالم بنیں ۔ کیونکہ آج کل جو لوگ علم حاصل کرتے ہیں ان کو بہت جلد اہل وعیال کے نفقہ کی فکر ہو جای ہے اس لیے وہ کمال تبحر حاصل نہیں کر سکتے مگر نہایت افسوس ہے کہ ان لوگوں کو کچھ بھی فکر نہیں ۔ یہ تو اگر ساری عمر علم میں گزار دیں تو ان کو بہت آسان ہے مگر سب سے زیادہ بے توجہ یہی طبقہ ہے ۔ اور اگر کچھ توجہ ہے بھی تو انگریزی کی طرف میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ انگریزی نہ پڑھیں ۔ نہیں اپنی دنیوی ضروریات کے لیے ضرور پڑھیں مگر ان کو ڈگری حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونک یہ لوگ ملازمت سے مستغنی ہیں ۔جب ان کو ملازمت کی ضرورت نہیں تو بقدر ضرورت اپنے گھر پر کسی ماسٹر کو ملازم رکھ کر انگریزی سیکھ لیں جس سے اپنی ریاست وتجارت کاکام چلا سکیں ۔ اور بقدر ضرورت تو انگریزی بہت جلد آسکتی ہے ۔ زیادہ عرصہ تو ڈگری میں لگتا ہے ۔
تو ان لوگوں کو انگریزی پڑھنے سے میں منع نہیں کرتا ، ہاں یہ کہتا ہوںکہ بہت پاس نہ جائیں ، دور رہیں اور اتنی انگریزی تو عربی سے فارغ ہونے کے بعد بھی یہ لوگ سیکھ سکتے ہیں مگر یہ لوگ تو زیادہ مال وجاہ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ اسی لیے انگریزی میں ڈگریاں حاصل کرکے ملازمت کرتے ہیں ۔ اس حرص کی وجہ سے یہ طبقہ سب سے زیادہ دین سے محروم ہے حالانکہ ان کو تو مولانا نظامی کے قول پر عمل کرنا چاہئے تھا ۔
خوشا روزگارے کہ دارد کسے
کہ بازار حرصش نباشد بسے
بقدر ضرورت یسارے بود
کند کارے ار مرد کارے بود
ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ جب خدا نے ان کو فراغت دی تھی تو بے فکر ہو کر دین کی خدمت میں لگتے اور ساری عمر اسی میں ختم کر دیتے ۔ پھر آپ دیکھتے کہ علماء میں کیسے کیسے لوگ پیدا ہوتے ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ علم میں مشغول ہر کر ان کو وہ لذت آتی کہ کبھی سیری نہ ہوتی ۔ یہ تو خدا کا راستہ ہے قطع کرنے سے بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی طلب کبھی کم نہیں ہوتی وہ حال ہو جاتا ہے ؎