وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْا الشَّیَا طِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلٰی الْمَلَکَیْنَ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْت وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ فَیَتَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہٖ وَمَاھُمْ بِضَآرِّیْنَ مِنْ أَحَدٍاِلَّا بِاِذْنِ اﷲِ
اس کے بعد آیت کا وہی حصہ ہے جو میں نے تلاوت کیا تھا ۔مقصود ان آیتوں سے یہود کی مذمت بیان کرنا ہے کیونکہ ان میں سحر کا بہت چرچا تھا اور اس میں بڑے ماہر تھے ۔چنانچہ انہوں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی سحر کیا تھا جس کا اثر بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہوگیا تھا پھر وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا کہ آپ پر فلاں شخص نے سحر کیا ہے ۔چنانچہ سورۃ الفلق میں اس کی طرف اشارہ ہے
ومن شر الننفّٰثٰت فی العقد
اور (آپ کہئے کہ)میں پناہ مانگتا ہوں بدی سے عورتوں کی جو گرہوں پر (پڑھ پڑھ کر) پھونک مارنے والی ہیں ۔گرہوں پر پھونک مارنے کی تخصیص اس لئے ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو سحر ہوا تھا وہ اسی قسم کا تھا کہ ایک تانت کے تکڑے میں گیارہ گرہیں دی گئی تھیں اور ہر گرہ پر کلہمات سحر کو دم کیا گیا تھا ۔اور عورتوں ہی نے یہ سحر کیا تھا ۔دوسرے کچھ تجربہ سے اور نیز علم طبعی کے لحاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا سحر بہ نسبت مردوں کے زیادہ مؤثر ہوتا ہے کیونکہ سحر میں قوت خیالی کو زیادہ دخل ہے خواہ وہ سحر حلال ہو یا سحر حرام۔
نیت کا اثر
سحر کی دو قسمیں ہیں ایک سحر حرام کہ محاورات میں اکثر اسی پر سحر کا اطلاق ہوتا ہے ۔دوسرا سحرِحلال جیسے عملیات اور عزائم اور تعاویذ وغیرہ کہ لغۃً یہ بھی سحر میں داخل ہے اور ان کو سحر حلال کہا جاتا ہے ۔لیکن یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تعویذ وعزائم وغیر ہ مطلقاً مباح نہیں بلکہ اس میں بھی تفسیل ہے کہ اگر اس میں اسمائے الٰہی سے استعانت ہو اور مقصود بھی جائز ہو توجائز ہے اگر مقصود ناجائز ہو تو حرام ہے ۔اور اگر شیاطین سے استعانت ہو تو مطلقاً حرام ہے ۔خواہ مقصود اچھا ہو یا برا ۔بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ جب مقصود اچھا ہو تو شیاطین کے نام سے بھی استعانت جائز ہے ۔یہ بالکل غلط ہے خوب سمجھ لو ۔
یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ’’ انما الاعمال بالنیات‘‘ کا حکم مطلق نہیں ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اچھی نیت سے حرام کام بھی جائز ہو جائیں امور محرمہ کسی نیت سے بھی کئے جائیں وہ حرام ہی رہیں گے بلکہ یہ حدیث امور مباحہ اور طاعت کے ساتھ مخصوص ہے ۔یعنی اگر جائز کام اچھی نیت سے کیا جائے تو اس پر ثوب ملتا ہے اور بری نیت سے کیاجائے تو گناہ ہوتا ہے ۔نیز بعض فرائض