فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَائً
اس سے پہلے جہاد کا ذکر ہے ۔ ارشاد فرماتے ہیں
فَاِذَا لَقِیْتُمُ الِّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ
پس جب تم کفار کے مقابل ہو تو ان کی گردنیں مارو (یعنی قتل کرو) یہاں تک کہ جب تم ان کی خوب خونریزی کر چکوتو ( تم کو دو اختیار ہیں ) یاتو بلا معاوضہ چھوڑ دینا جو کہ احسان ہے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دینا اس سے اس نئے مفسر نے یہ استدلال کیا کہ اس آیت میں بطور حصر کے دو باتیں مذکور ہیں جس سے یہ لازم اتا ہے کہ تیسری صورت (یعنی غلام بنانا)جائز نہیں۔
اس تقریر سے ایک عالم کو شبہ پڑگیا ۔ اس کا جواب ایک دوسرے عالم نے ان کو یہ دیا کہ پہلے اپ یہ بتلائیں کہ یہ قضیہ کون سا ہے حملیہ یا شرطیہ؟ اور شرطیہ ہے تو متصلہ یا منفصلہ اور منفصلہ ہے تو حقیقیہ یا مانعۃ الجمع یا مانعۃ الخلو۔ بس اتنی بات میں سارے اشکال کو درہم برہم کر دیا۔ کیونکہ حاصل جواب کا یہ ہوا کہ یہ قضیہ ممکن ہے کہ مانعۃ الجمع ہو ۔ یعنی ان دونوں کا جمع کرنا ممتنع ہے ۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ یہ دونوں صورتیں مرتفع ہوں اور تیسری کوئی اور صورت ہو کیونکہ مانعۃ الجمع کا حکم یہی ہے کہ ان کا اجتماع جائز نہیں ہوتا ۔ اور دونوں کاارتفاع ممکن ہے ۔
مثلاً دور سے کسی چیز کو دیکھ کر ہم یہ کہیں کہ یہ چیز یا تو درخت ہے یا آدمی ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ان دونوں کااجتماع تو نا ممکن ہے ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نہ درخت ہو نہ آدمی ہو بلکہ کوئی تیسری چیز ہو گھوڑا بیل وغیرہ ۔اسی طرح اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے کہ من وفداء دونوں کا جمع کرنا ممتنع ہے ۔ البتہ دونوں سے خلو ممکن ہے ۔ تو اب اس سے غلامی کی نفی کیونکر ہوئی ۔ سو دیکھئے جو شخص مانعۃ الجمع ومانعۃ الخلو کی ھقیقت نہ جانتا ہو وہ نہ اس اشکال کو دور کر سکتا ہے اور نہ جواب سمجھ سکتا ہے
اسی طرح ایک اور آیت میںدوسرا اشکال یہ ہے ۔آیت یہ ہے ۔
وَلَوْعَلِمَ اﷲُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَھُمْ وَلَوْ أَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوا وَھُمْ مُعْرِضُوْنَ
بظاہر اس آیت میں میں شکل اول معلوم ہوتی ہے ۔ ترجمہ یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ ان (کفار) میں کچھ بھلائی اور خیر دیکھتے تو ان کو (دین کی باتیں) سنا دیتے ۔ اور اگر ان کو سنا دیتے تو وہ اعتراض کر تے ہوئے پیٹھ موڑ دیتے ۔شکل اول کے قاعدہ پر اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے ’’لَوْعَلِمَ اﷲُ فِیْہِمْ خَیْرًالَتَوَلَّوا‘‘یعنی اگر حق تعالیٰ ان میں بھلائی دیکھتے تو وہ پیٹھ موڑ دیتے ۔ حالانکہ یہ نتیجہ محال کو مستلزم ہے کیونکہ جس صورت میں حق تعالیٰ کو ان کے اندر بھلائی معلوم ہوت اس صورت میں تو وہ حق بات کو قبول کرتے ۔ اس حلات میں اعراض کیونکر ممکن تھا ۔ کیونکہ اعراض تو شر ہے خیر کے ساتھ اس کا اجتماع نہیں ہو سکتا ورنہ لازم آئے گا کہ ان میں خیر ہی نہیں ۔