کہا میں آپ سے معافی چا ہتا ہوں۔مجھے یہ صورت دیکھ کرغصّہ آگیا ۔میں نے دوتین طمانچے لگا ئے کہ گستاخ یہ طریق ہوتا ہے معافی چاہنے کا ۔آگے ہوتھ جوڑ پیر پکر ورنہ ابھی مدرسہ سے نکال دوںگا ۔یہ اج کل کی تہزیب کا اثر ہے جو افسوس ہے کہ طلباء اور علماء میں بھی سرایت کر تیا ہے معافی اس طرح چاہتے ہیں جس میں ندامت نام کو بھی نہیں ہوتی ۔
خیر یہ تو استطراداً ذکر آگیا تھا ۔میں یہ بیان کررہا تھا کہ آج کل لوگوں میں یہ خبط ہے کہ ہر چیز کو قرآن میں ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
ایک قصہ یاد آیا کہ اہل سائنس نے یہ تحقیق کی ہے کہ انسان کی منی میں ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے اس سے حمل قرار پاتا ہے ۔ایک صاحب کو اس کی فکر ہوئی کہ قرآن سے اس مسئلہ کو ثابت کیاجائے ۔کیونکہ سائنس والوں کی تحقیق تو غلط ہو ہی نہیں سکتی ۔وہ تو یقینا صحیح ہے بس کسی طرح اس کو قرآن میں ٹھونسنا چاہئے۔ استغفر اﷲ العظیم۔ غرض انہوں نے کھینچ تان کر اس کو قرآن سے ثابت کیا ۔اب سنئے کیا خوبصورت استدلال ہے ۔ آپ نے اس آیت سے ثبوت دیا
اقرأباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق
علق کے معنی لغت میں خون بستہ بھی ہیں اور جونک کوبھی علق کہتے ہیں۔آپ نے یہ تفسیر کی کہ خدا نے پیدا کیا انسان کو جونک سے ۔کیا واہیات ہے ۔بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ اس تفسیر سے سائنس کا مسئلہ کیوں کر ثابت ہوگیا کیونکہ وہ لوگ اس کے قائل نہیں ہیںکہ انسان کی منی میں جونک ہوتی ہے ۔ہاں اس پر ایک حاشیہ اور لگنا چاہئے کہ جونک سے مراد وہ نہیں ہے جسے عام لوگ جونک کہتے ہیں بلکہ مطلق کیڑا مراد ہے ۔ بس یہ تفسیر کر کے وہ صاحب خود ہی اپنے جی میں خوش ہو لیے ہوں گے تو آپ نے دیکھا کہ اس طرز میں شریعت کی کس قدر تحریف لازم آتی ہے ۔اور اس سے احتراز کس قدر ضروری ہے کہ اگر کوی ایسے مسائل کا ثبوت قرآن سے مانگے تو اس سے صاف کہہ دینا چاہئے کہ قرآن علم تشریح کی کتاب نہیں ہے ۔اسی طرح جب کسی چیز کے حرام ہونے کی وجہ دریافت کی جائے تو بس یہی جواب دو کہ خدا نے اس کو منع کیا ہے ۔خواہ مخواہ اپنی طرف سے علتیں نہ گھڑنا چاہئیں۔
عقلی علت بعض لوگ
کلموا الناس علی قدر عقولہم
سے استدلال کرتے ہیں کہ حدیث میں اس کا امر ہے کہ لوگوں کی عقل کے اندازہ سے کلام کیا کرو اور جب آج کل طبائع کا یہ حال ہے کہ بدون عقلی علت معلوم کئے ان کو تسلی نہیں ہوتی ،تو ہم کو اسی طرز سے کلام کرنا چاہئے ۔ میں کہتا ہوں کہ آپ نے حدیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھا ۔حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کے سامنے ایسی تدقیقات اور باریک باریک مضامین نہ بیان کرو جو ان