سکتے ہو کہ یہ قانون کہاں ہے۔ ہم تم کو قرآن یا حدیث کا فقہ میں وہ قانون دکھلادیں گے ۔یہ سوال واضع قانون سے کرو اور واضع قانون حق تعالیٰ ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی واضع نہیں ہیں ۔آپ صرف مبلغ ہیں۔آپ کی تو یہ شان ہے ؎
گفتۂ او گفتۂ اﷲ بود
گرچہ از حلقوم عبداﷲ بود
اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے علماء کی یہ حالت ہے ؎
درپس آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند
آنچہ استاد ازل گفت ہماں می گویم
حکمتِ احکام
اس کے یہ معنی نہیں کہ ان احکام میں حکمت نہیں ۔حکمت ہے اور ضرور ہے اور اس کو علماء جانتے بھی ہیں ۔مگر یہ کیا ضرور ہے کہ تم کو بتلابھی دیں ۔ہمارے پاس گنی ہے مگر تم کو نہیں دیتے ۔کسی کا کیا اجارہ ہے ۔ غرض ہم واضع قانون نہیں ہیںجو قانون کی علتیں ہمارے ذمہ ضروری ہوں ہم تو اتنی بات جانتے یہں کہ خدا تعالیٰ نے سود کر حرام کیا ہے اس لیے وہ حرام ہے ۔اگر یہ سوال کرو کہ کہاں حرام کیا ہے ؟ اس کا جواب البتہ ہمارے ذمہ ہے ۔ہم کہہ دیں گے حق تعالیٰ نے فرمایا ہے
أحل اﷲ البیع وحرم الربوا
میں اوپر یہ بیان کر رہا تھا کہ ایک صاحب نے سود کے حرام ہونے کی علت یہ سمجھی تھی کہ اس میں بے مروتی ہے ۔سو یہ علت علت نہیں کیونکہ اس طرح تو ہر تجارت میں بے مروتی ثابت کی جا سکتی ہے بلکہ اصل وہی ہے جو میں نے بتلائی ۔
بعض لوگ اپنی طرف سے احکام کی علتیں تراش کر غلہ کی تجارت کو حرام سمجھنے لگے سو یہ بالکل غلط ہے غلہ کی تجارت ویسی ہے جیسے اور چیزوں کی تجارت ،اس میں کچھ حرج نہیں۔رہا یہ اس میں گرانی کا انتظار ہوتا ہے سو میں کہتا ہوں کہ گرانی کا طبعی انتظار ہونے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں ۔ہاں زیادہ گرانی کی دعائیں مانگنا یا تمنا کرنا برا ۔باقی اپنے نفع کی دعا کرنا یہ جائز ہے گو اس میں گرانی کی تمنا بھی لازم آتی ہے ۔اور فقہانے جو احتکار کو منع کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قحط کے زمانہ میں غلہ کا روکنا جب کہ بستی میں غلہ ملتا ہی نہ ہو اور لوگوں کو تکلیف ہونے لگے اس وقت حرام ہے ۔اگر دکانوں پر غلہ ملتا ہوتو روکنا حرام نہیں ہے ۔غرض یہ جو مشہور ہے کہ نفع کی امید میں بھی غلہ کا روکنا حرام ہے یہ صحیح نہیں ۔خلاصہ یہ کہ ہم نے اپنی طرف سے علتیں گھڑ کر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر رکھا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے غلہ کی تجارت بالکل نکل گئی اور صرف ہندؤوں