معلوم ہے کہ جو شخص علم مضر کو اختیار کرے ۔ آخرت میں اس کے لیے (اس علم کی وجہ سے ) کچھ حصہ نہیں۔ آگے فرماتے ہیں’’لَوْ کَانُوا یَعْلَمُوْنَ‘‘ کاش کہ وہ جاننے والے ہوتے ۔ اس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ جب وہ جانتے تو پھر اس کا کیا مطلب کہ کاش وہ جاتنے ہوتے ۔اس میں نکتہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ جس علم پر عمل نہ ہو وہ بمنزلہ جہل کے ہے ۔ اس لیے یہودیوں کا وہ جاننا تو نہ جاننے کے برابر ہو گیا ۔ اب آئندہ کی نسبت فرماتے ہیں کہ کاش اب بھی جان لیں یعنی اپنے علم پر عمل کرنے لگیں۔
اور یہاں سے میں ایک اور غلطی پر اپ کو متنبہ کرتا ہوں وہ یہ کہ اس آیت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ علوم نافعہ وہ ہیںجو آخرت میں کام آئیں مطلق علوم مراد نہیں ۔اب آج کل بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ علم کی فضیلت میں آیات واحادیث لکھتے ہیں اور اس پر زور دیتے ہیں کہ شریعت مین علم حاصل کرنے کی بہت تاکید ہے ۔ اور اس کے بعد ان تمام فضائل کو انگریزی تعلیم پر چسپاں کرتے ہیں ۔ اس تمام تمہید کے بعد وہ انگریزی پڑھنے کی ضرورت کو ثابت کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہیں ۔ جس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گویا انگریزی پڑھنے سے یہ تمام فضائل حاصل ہو جائیں گے ۔
سو خوب سمجھ لو کہ یہ لوگ سخت دھوکا دیتے ہیں ۔ شریعت میں جتنے فضائل علم کے مذکور ہیں ان سے مراد وہ علم ہے جوآخرت میں مفید ہو یعنی علم شرائع واحکام۔ انگریزی تعلیم اس سے مراد نہیں ۔ہاں اگر انگریزی مین دینی مسائل کا ترجمہ ہو جائے تو پھر ان انگریزی کتابوں کو پڑھنا بھی ویسا ہے جیسا کہ اردو میں دینی مسائل کا پڑھنا ۔ مگر شرط یہ ہے کہ ترجمہ کرنے والا محض انگریزی داں نہ ہو بلکہ محقق عالم ہو یا کسی انگریزی دان محقق عالم نے اس کی اصلاح اور تصدیق کر دی ہو ۔ ایسا ترجمہ نہ ہو جیسا کہ ایک صاحب نے انگریزی میں شرع محمدی ایک کتاب لکھی ہے جس میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ تعجب کی حالت میںطلاق نہیں پڑتی۔مجھے اس کی خبر اس طرح ہوئی کہ ایک مقام پر ایک واقعہ طلاق کا پیش آیاتھا ۔ اس میں طلاق دینے والے کے بعض خیر خواہوں کو فکر ہوئی کہ کسی طرح کچھ گنجائش نکل آوے ۔ تو چیپا چیپی کردیں ۔ چنانچہ مختلف کتابیں دیکھی گئیں ۔ ان میں وہ شرع محمدی بھی نکالی گئی ۔اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ تعجب کی صورت میں طلاق نہیں ہوئی جس میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ مثلاً کسی کی بیوی نے خلاف عادت ایک دن خوب زینت وآرائش کی ۔ شوہر کو یہ حالت دیکھ کر تعجب پیدا ہوا اس نے تعجب میں کہہ دیا کہ تجھے تین طلاق اب یہ انگریزی مفتی فرماتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی کیونکہ تعجب میں دی گئی ۔لا حول ولا قوۃالا باﷲ!
جب میرے پاس یہ کتاب لائی گئی ۔میں نے کہاکہ یہ مسئلہ تو بالکل غلط ہے اس کی کچھ اصل نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مدہوش کی طلاق نہیں ہوتی ۔مدہوش عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ۔ ’’از عقل رفتہ‘‘یعنی غصہ وغیر ہ میں اگر