بعندلیب چہ فرمودئہ کہ نالاں است
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فضائل ہم کو وہی بیان کرنے چاہئیں جو احادیث میں مذکور ہیں وہ کیا کچھ کم فضائل ہیں اور یہاں سے اس کی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے فضائل خود کیوں بیان فرمائے ۔ وجہ یہ ہے کہ اگر خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بیان نہ فرماتے تو امت اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر بیان کرتی کیونکہ محبت واعتقاد اس پر مجبور کیا کرتا ہے کہ محبوب کے فضائل بیان کئے جائیں اور ہمارے بیان کردہ فضائل میں یہ اندیشہ غالب تھا کہ دوسرے انبیاء کی تحقیر وتوہین لازم آجائے جیسا کہ مشاہدہ ہو رہا ہے ۔ اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سچے اور واقعی کمالات خود ہی بیان فرما دیئے تاکہ اگر کسی کو محبت وعشق کے غلبہ میں آپ کے فضائل بیان کرنے کا شوق ہو ، وہ ان صحیح فضائل کو بیان کر کے اپنا شوق پورا کرے اور ان فضائل کے بیان کرنے میں کسی نبی کی توہین کا شائبہ بھی نہیں ۔
الغرض آج کل مناظرہ کی تعلیم جس طرز سے کی جاتی ہے وہ قابل ترک ہے ۔چنانچہ اس شخص مذکور نے عیسیٰ علیہ السلام کو معاذ اﷲ نامرد بتانا چاہا ۔ یہ تو مہذب لوگوں کو مناظرہ ہے اور گنواروں کا مناظرہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے ۔
روڑکی میں ایک عیسائی بیان کر رہا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں ۔ ایک گنوار نے کہا کہ خدا کے اور بھی کوئی بیٹا ہے یا نہیں ؟ پادری نے کہا! نہیں ۔گنور نے کہا ،بس تیرے خدا کے اتنے زمانہ میں ایک ہی بیٹا ہوا میرے نکاح کو اتنا عرصہ ہوا ہے ۔ اس وقت میرے گیارہ بیٹے ہیں اور بھی ہوں گے ۔ تو تیرے خدا سے تو میں ہی اچھا رہا ۔
اس گنوار کا جواب اگرچہ فی نفسہ ایک معقول بات تھی ۔واقعی اگر خدا کے لیے بیٹا ہونا ممکن ہے تو پھر اس کی کیا وجہ کہ اس کے ایک ہی بیٹا ہو ۔ حالانکہ اس کی مخلوق میں ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کے بہت اولاد ہوتی ہے لیکن طرز نہایت بیہودہ ہے ۔ غرض جو علوم مضر ہوں ان کا سیکھنا حرام ہے ۔
ویتعلمون ما یضرھم ولا ینفعھم
یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے ۔
مضر ونافع علوم
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب بعض علوم مضر ہیں تو کوئی نافع بھی ضرور ہے تو اس سے دو حکم معلوم ہوئے ایک یہ کہ علم مضر سے بچنا چاہئے دوسرے یہ کہ علوم نافعہ کو سیکھنا چاہئے ۔ رہا یہ کہ مضر کون ہے اور نافع کون ہے ؟ تو اس کی تعیین خود اسی آیت میں موجود ہے ۔
ولقد علموا لمن اشتراہ مالہ فی الآخرۃ من خلاق
اس سے معلوم ہوا کہ علم مضر وہ ہے جو آخرت میں کام نہ آوے تو اس کے