Deobandi Books

تعمیم التعلیم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

7 - 86
دریافت کیا کرتے ہیں کہ سود کیوں حرام ہوا ؟ اس میں کیا خرابی ہے ؟ جان بیمہ کیوں ناجائز ہے ؟اس میں تو بڑا نفع ہے ۔سو یاد رکھو کہ اس سوال کا کسی مسلمان کو حق نہیں ۔مسلمان کے لیے اتنی وجہ کافی ہے کہ حق تعالیٰ اس فعل سے ناراض ہیں ۔عاشق کو اتنی بات معلوم کر لینے کے بعد کہ محبوب اس بات سیناراض ہوتا ہے کسی اور درجہ کا انتظار نہیں ہوتا ۔پھر مسلمانوں کو گناہوں کے متعلق علل اور اسباب کی تلاش کا انتظار کیوں ہے ؟اور اگر تم عاشق نہیں بنتے تو خدا کے غلا تو ہو ۔اب خود ہی انصاف کر لو کہ اگر تمہارا کوئی نوکر یا گلام تم سے یہ دریافت کرنے لگے کہ آپ فلاں کام سے کیوں ناراض ہوتے ہیں ؟اس کی وجہ پہلے بتا دیجئے تب میں اس کام سے باز آؤں گا ورنہ میں اپنی رائے پر عمل کروں گا توآپ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ افسوس! تم اس غلام سے بھی گئے جزرے ہوگئے جس کو ایک شخص نے خرید کیا اور پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ اب تک خواہ کچھ ہی نام تھا لیکن اب سے تو وہی نام ہے جس سے آپپکاریں ۔آقا نے پوچھا تو کیا کھاتا ہے ؟کہنے لگا جو حضور کھلائیں گے وہی کھاغں گا ۔جوآپ پہنائیں گے وہی پہنوں گا ۔
افسوس ! ہم خدا کے ساتھ اتنا بھی برتاؤ نہیں کرتے اور اس کے احکام میں علتیں ڈھونڈھتے ہیں آج کل اکثر نو تعلیم یافتہ اس میں مبتلا ہیں کہ ان کو یہ جواب کافی نہیں ہوتا کہ سود اس واسطے حرام ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہیں بلکہ وہ اس کی عقلی علت معلوم کرنا چاہتے ہیں اور جب تک علت معلوم نہ ہو اس وقت تک ان کی تسلی نہیں ہوتی ۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ میں اس سود کے مذموم ہونے کی علت یہ نہیں تسلیم کرتا کہ اس سے دوزخ میں جانا ہوگا بلکہ میں اس واسطے اسے حرام سمجھتا ہوں کہ اس میں بے مروتی بہت زیادہ ہے کہ اپنے ایک بھائی کو دئیے تو تھے سو روپے اور لے لیے دوسو ۔میں کہتا ہوں کہ یہ علت ایسی ہے جس کو ذرا سے تأمل کے بعد ہر عاقل توڑ سکتا ہے کیوں کہ ذہین آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسی بے مروتی ہر تجارت میں ہے مثلاً ہم نے ایک کپڑا خریدا تو دس روپے میں اور اس کو فروخت کرنے لگے بیس روپے میں ،یہ بھی بے مروتی ہے ۔ایک مکان ہم نے تیار کیا دوہزار میںاور بیچنے لگے دس ہزار میں ،یہ بھی بے مروتی ہے ۔اسی طرح ایک جائیداد ہم نے خرید کی تھی ہزار میں اور فروخت کرنے لگے پندرہ ہزار میں ۔اب وہ شخص جو سود کی صورت میں کوئی عقلی وجہ بیان کرے ۔ سو ہرگز وہ کوئی فرق عقلی نہ بیان کر سکے گا۔
چنانچہ کفار مکہ کو بھی یہی شبہ پیش آیا تھا ان کو بھی یہی حیرت تھی وہ کہتے تھے 
انما البیع مثل الربوا
کہ ربوا اور بیع میں کیا فرق ہے؟ دونوں ظاہر میں یکساں معلوم ہوتے ہیں ۔تو اب وہ علت کہاں رہی ؟قرآن میں اس کو جواب جو دیا گیا ہے وہ سننے کے قابل ہے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تمہید 1 1
3 علم سحر 1 2
4 ومن شر الننفّٰثٰت فی العقد 2 2
5 نیت کا اثر 2 2
6 علت اور شریعت 6 2
7 انما البیع مثل الربوا 7 2
8 اصول شریعت 8 2
9 فاعتبرو ایا اولی الابصار 9 2
10 عجب وکبر 11 2
11 عقلی علت بعض لوگ 12 2
12 حکمتِ احکام 15 2
13 نسبت مع اﷲ 17 2
14 حرمت کا مدار 18 2
15 بے وضو نماز 20 2
16 مولوی کی تعریف 21 2
17 بسم اﷲ پڑھنا 22 2
18 نفع کی چیز 24 2
19 سفلی وعلوی عمل 24 2
20 توجہ ومسمریزم کی حقیقت 25 2
21 علوی عمل کی حدود 28 2
22 سحر کی تاثیر 29 1
23 کشف کے خطرات 31 22
24 تعلیم نسواں کی ضرورت 32 22
25 عجائب پرستی 34 22
26 غلو فی الدین 35 22
27 عوام کا اعتقاد 36 22
28 واعظین کا مذاق 37 22
29 مجذوب اور سالک کا فرق 42 22
30 کاملین کے کمالات 43 22
31 سحر کے اثرات 46 22
32 علم محمود 47 22
33 مناظرے کی خرابیاں 48 22
34 مضر ونافع علوم 53 22
35 علماء کی غلطی 55 22
36 عوام کی غلطی 56 22
37 علماء کی کوتاہی 59 1
38 علماء کو ہدایت 64 37
39 علم کی کیمیا 66 37
40 علم کی فضیلت 68 37
41 صحبت کا اثر 70 37
42 امراء کی کوتاہی 71 37
43 علم کی قدر 72 37
44 انتخاب طلباء 74 37
45 علم دین کی برکت 75 37
46 رفع اشکالات 77 37
47 مفید علم 82 37
48 کام کی باتیں 84 37
Flag Counter