آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
حضرت نجم الدین کبریٰ نے کھڑے ہو کر حافظ کو سینے سے لگا لیا اور فرمایا ’’بتو نظر کردم ،بتو نظر کردم‘‘ اور جوکچھ ان کو دینا تھا اسی وقت عطا فرمادیا اور تشریف لے گئے ۔
تو حضرت بعضے احمق ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلمندوں سے اچھے پڑ رہتے ہیں ۔ غرض ان لوگوں کو تو ان کی حماقت مبارک ہو گئی مگر تم نے اس خیر خواہی کا قصد نہ کیا تھا ۔ تم تو ان کو عربی میں نکما اور ناکارہ سمجھ کر ہی ڈالتے ہو ۔ سو یہ کس قدر بے ہودہ بات ہے ۔ تم کو چاہئے کہ علم دین کے واسطے ذہین ذہین لڑکوں کو انتخاب کرو اور جب خدا نے تم کو فراغت دی ہے تو بے فکری کے ساتھ ان کو مکمل نصاب کی تعلیم دو اور اگر پوری تعلیم نہیں دے سکتے تو عربی کا مختصر نصاب ہی ان کو ضرور پڑھا دو کہ بقدر ضرورت وہ بھی کافی ہے ۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم اردو میں تو ضرور ان کا آگاہ کر دو اور چند روز کے لیے کسی کامل کی صحبت میں ان کو چھوڑ دو تاکہ وہ مسلمان تو بن جائیں ۔
شاید تم یہ کہو کہ جب اردو میں مسائل معلوم ہو سکتے ہیں اور اس طرح بھی دین سے واقف ہو سکتے ہیں تو پھر عربی پڑھانے کی ہی کیا ضرورت ہے ۔ سو خوب سمجھ لو کہ تعلیم دین عام ہونے سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عربی کی ضرورت ہی نہیں ۔ عربی تعلیم سے استغناء بھی نہیں ہو سکتا ۔ میرا مطلب صرف اتنا ہے کہ اگر تم عربی نہ پڑھانا چاہو تو کم از کم اردو ہی میں دین سے واقف کر دو ۔ باقی اردو پڑھنے والا عربی پڑھنے والے کے برابر کبھی نہیں ہو سکتا ۔
اس کی وجہ ایک بچہ نے بتلائی ۔ واقعی غضب ہی کر دیا کہ اس نے ذرا سی عمر میں ایسی گہرائی کی بات کہی ۔ میرا ایک عزیز ہے ۔ اس کے والد نے بچپن ہی سے اس کو انگریزی تعلیم میں ڈال دیا تھا ۔ ایک مرتبہ وہ شوخی کرتا پھرتا تھا ۔ میں نے بلایا کہ ادھر آؤ باتیں کریں ۔ وہ آیا ، میں نے کہا کہ بتلا عربی اچھی ہے یا انگریزی؟ بے ساختہ بولا کہ ! عربی ۔ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا ! کلام اﷲ عربی میں ہے ۔ عربی پڑھنے سے کلام اﷲ خوب سمجھ میں آتا ہے ۔ مجھے اس کے جواب سے حیرت ہو گئی ۔
پھر میں نے کہا کہ یہ تو صحیح ہے مگر اس سے دنیا نہیں ملتی نہ اس سے بڑی بری نوکریاں ملتی ہیں اور انگریزی پڑھنے سے بڑے بڑے عہدے ملتے ہیں ۔ تو عربی پڑھ کر کھائے کہاں سے ؟ اس کا جواب بھی کس قدر گہر ادیا ۔کہنے لگا کہ جب آدمی عربی پڑھتا ہے تو وہ اﷲ کا ہو جاتا ہے ۔ پھر اﷲ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ اس کی خدمت کرو ۔ لوگ اس کی خدمت کرو ۔ اس لیے وہ پریشان نہیں ہوتا ۔ میں نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے مگر یہ ذلت کی صورت ہے کہ لوگوں کے نذرانوں پر پڑا رہتا ہے ۔ کہنے لگا کہ ذلت توخود مانگنے میں ہے اور اس میں کیا ذلت ہے کہ لوگ اس کو خوشامد کر کر کے دیں ۔ میں نے کہا کہ