یہ خیال تھا کہ میں اس جگہ ’’ضَالًّا‘‘ کا ترجمہ ’’گمراہ ‘‘ سے کروں گا اور وہ ترجمہ بھی غلط نہیں ہے مگر غلط فہمی زبان نہ جاننے سے ہوتی ہے وجہ یہ ہے کہ اردو میں تو گمراہ کا مفہوم یہی کہ باوجود وضوح حق کے اس کو قبول نہ کرے۔ اور عربی میں ’’ضلال‘‘ اور فارسی میں ’’گمراہی‘‘ کا اطلاق عام ہے اس معنیٰ کو بھی اور عدم وضوح کو بھی ۔ پس ضال کے معنی گمراہ کے بھی ہیں اور بے خبری اور ناواقفی کے بھی ہیں۔
ایک اشکال ترجمہ پڑھنے والوں کو اس آیت پر ہوتا ہے
وَلَنْ یَجْعَلَ اﷲُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤُمِنِیْنَ سَبِیْلًا
اور ہرگز نہیں دیں گے حق تعالیٰ مسلمانوں پر کوئی راہ یعنی غلبہ
اشکال یہ ہوتا ہے کہ ہم تو برہا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کفار مسلمانوں پر غالب ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بہت جواب علماء نے دیئے ہیں ۔ لیکن اگر قرآن کے ساتھ ذوق ومناسبت ہو تو وہ ضرور یہ سمجھے گا کہ کلام اﷲ غیر مرتبط نہیں ہے پھر جب اس کو مرتبط سمجھے گا تو ہر مقام پر سیاق وسباق کو بھی دیکھے گا ۔ چنانچہ اس آیت پر اشکال اس لئے ہوا کہ لوگوںنے ’’وَلَنْ یَجْعَلَ اﷲُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤُمِنِیْنَ سَبِیْلًا‘‘ کے سباق کو نہ دیکھااس میں یہ حکم آخرت کے ساتھ مخصوص ہے ۔ چنانچہ اس سے پہلے یہ ارشاد ہے
فَاﷲُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ
حق تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔ یعنی قیامت میں کفار ومسلمین کا فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا کون ناحق پر۔ اس کے بعد فرماتے ہیں ’’وَلَنْ یَجْعَلَ اﷲُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤُمِنِیْنَ سَبِیْلًا‘‘ اور اﷲ تعالیٰ کفار کو مسلمانوں پر ہرگز غلبہ نہ دیں گے یعنی اس فیصلہ میں جو آخرت میں ہو گا ۔ اب کوئی اشکال نہ رہا۔
بعض دفعہ قاعدئہ صرف کے نہ جاننے سے اشکال ہوتا ہے چنانچہ ایک مرتبہ اخباروں میں یہ خبر مشہور ہوی تھی کہ امریکہ میں ایک شخص کے دو دل ہیں اس سے بعض لوگوں کو اشکال ہوا کہ یہ تو قرآن کے منافی ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
مَاجَعَلَ اﷲُ لِرَجُلٍ مَنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوفِہٖ
یعنی خدا تعالیٰ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں بنائے ۔
اس کا جواب ایک تو یہی ہے کہ اہل اخبار کی خبر کا اعتبار ہی کیا ۔ کسی نے اس کے پیٹ کو چیر کر تو نہیں دیکھا ۔ محض قیاس اور گمان سے یہ حکم لگا دیا ہے ۔ کہ اس شخص کے دو دل ہیں ۔ سو ممکن ہے کہ اس شخص کا دل بہت قوی ہو اس لیے دو دل ہونے کا شبہ ہو گیا ہو ۔ یہ جواب تو بطور منع کے ہے ۔ اور بعد تسلیم کے جواب یہ ہے کہ قرآن میں ’’مَا جَعَلَ ‘‘ صیغہ ماضی کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تک خدا نے کسی کے دو دل نہیں بنائے ۔