آرام میں رہوگے کیونکہ تم پھر بھی استاد ہوگے اور سب لوگ تمہارے شاگرد ہوں گے ۔ شاگرد چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے آخر رتبہ استاد سے کم ہی ہے ۔ گو ظاہر میں بڑا معلوم ہو جیسے کوئی شخص اپنے چھوٹے بھائی کو خوب دودھ گھی کھلاوے تاکہ موٹا تازہ ہو جاوے اور چند سال میں ایسا تیار ہو جاوے کہ بڑا بھائی اس سے چھوٹا معلوم ہونے لگے تو کیا رتبہ میں بھی وہ چھوٹا ہو جائے گا ۔ ہر گز نہیں ۔بڑا بھائی پھر بھی بڑا رہے گا ۔ اور جب لوگ تمہارے شاگرد ہو جاویں گے اس وقت تمہاری اس وقت سے زیادہ قدر ہو گی کیونکہ وہ جانیں گے کہ ان کے پاس علمی جوہر ہے ۔ میزان پڑھنے والا شرح ملا جامی پڑھنے والے کی اس لیے قدر کرتا ہے ہ وہ جانتا ہے کہ یہ اس درجہ کا طالب علم ہے اور جس نے کچھ بھی نہ پڑھا ہو اس کے نزدیک میزان اور شرح جامی پڑھنے والا یکساں ہے ۔
الغرض علماء کو چاہے کہ نصاب تعلیم کو وسیع کریں ۔ پس ایک نصاب تو مکمل ہونا چاہئے ان لوگوں کے لیے کن کو عربی پڑھنے کے لیے فراغت اور فرصت ہے ۔ دوسرا نصاب عربی میں ان لوگوں کے لیے ہونا چاہئے جن کو عربی پڑھنے کا شوق ہے فرصت کم ہے ۔ تیسرا نصاب اردو میں ان لوگوں کے لیے ہونا چاہئے جو عربی نہیں پڑھ سکتے ۔ ان کو اردو میں ضروریات دین پڑھا کر عقائد واحکام معاملات سے آگاہ کر دینا چاہئے ۔ اور ایک چوتھا نصاب ان بوڑھے طوطوں کے لیے مقرر ہونا چاہئے ، جو اردو بھی نہیں پڑھ سکتے ، کیونکہ ان بوڑھے آدمیوں کو اب مکتب میں جا کر پرھنا دشوار ہے ، ان کے لیے یہ تدبیر ہونی چاہئے کہ ایک عالم ہر ہفتہ میں کتاب ہاتھ میں لے کر ان کو مسائل سنا دیا کرے اور اچھی طرح سمجھا دیا کرے اس طریقہ گاؤں والے بھی تعلیم یافتہ ہو سکتے ہیں۔ گاؤں والوں کو چاہئے کہ ایک عالم کو اپنے گاؤں میں رکھ لیا کریں ۔ دس پندرہ روپے ماہوار میں ایسا عالم ان کو مل جائے گا جو ضروری ضروری مسائل ان کو بتلا دیا کرے گا ۔ اور علماء کو بھی چاہئے کہ دیہات والوں کی تعلیم کی طرف توجہ کریں اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر تم ان کو تعلیم یافتہ بنا دو گے تو وہ کسی کے دھوکا میں نہ آئیں گے ورنہ کوئی دوسرا جاہل واعظ ان کو بہکا دے گا ۔ پھر جو وقعت آج تمہاری گاؤں میں رہی ہے وہ سب جاتی رہے گی ۔ چنانچہ ایسے قصے بہت پیش آتے ہیں ۔
ایک شخص گاؤں میںگیا۔ اس کو یہ فکر ہوئی کہ کسی طرح ان ملاؤں کو یہاں سے نکلواناچاہئے ۔ اس نے یہ تدبیر کی کہ ملاؤں کا امتحان لینا شروع کیا ۔ سب سے یہ پوچھتاکہ ’’نمے دانم‘‘ کے کیا معنٰی ہیں ۔ اگر اس کو معنی معلوم نہ ہوئے تب تو وہ ذلیل ہوتا ہی تھا اور اگر معنی معلوم ہوئے تب بھی وہ یہی کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کیونکہ ’’نمے دانم‘‘ کے معنی یہی ہیں ۔ اس پر وہ کہہ دیتا کہ دیکھو خود اقرار کر لیا کہ میں نہیں جانتا ۔ اپنی جہالت کا خود معترف ہے ۔ پس گاؤں والے سمجھ جاتے کہ واقعی یہ ملا جاہل ہے ۔