بکرؓ ہی سے آکر مصافحہ کرتے ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے کوئی مصافحہ نہ کرتا ۔ مگر اﷲ رے تواضع کہ نہ حضور ہی نے خود یہ فرمایا کہ مجھ سے مصافحہ کرو میں محمد رسول اﷲ ہوں ۔ اور حضرت ابوبکر کی سادگی کہ انہوں نے مصافحہ سے انکار نہ کیا جو کوئی ان سے مصافحہ کرتا بے تکلف ہاتھ بڑھا دیتے انہوں نے حضور کی راحت کا خیال کیا ہوگا کہ حضور کو اتنی بھی تکلیف کیوں دیں ۔ الغرض دیر تک لوگ حضرت ابوبکر ہی کو رسول اﷲ سمجھتے رہے ۔ تھوڑی دیر میں جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر دھوپ آنے لگی ۔ اس وقت صدیق رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور اپنے چادر سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر سایہ کرنے لگے ۔جب سب کو معلوم ہوا کہ یہ خادم ہیں جن سے ہم نے مصافحہ کیا تھا ۔ اور دوسرے مخدوم ہیں ۔ بھلا کچھ حد ہے اس تواضع اور سادگی کی ۔
مگر آج کل تو لوگ خود بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی کوشش بھی نہ کرے تو عوام کے مصافحہ اور ہاتھ پیر چومنے سے اس کو شبہ ہوتا ہے کہ میں ضرور کچھ ہوں جبھی تو یہ لوگ میری اس قدر تعظیم کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ انسان کو اپنے عیوب حالانکہ خوب معلوم ہوتے ہیں جن کو دوسرے نہیں جانتے تو گویا دوسرے لوگ اس کے عیوب سے جاہل ہیں مگر یہ شخص ان جاہلوں کی تعظیم وتکریم سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں واقع میں اسی قابل ہوں اور جو عیوب اسے یقینا معلوم ہوتے ہیں ان سے قطع نظر کر لیتا ہے بلکہ ان کو بھول جاتا ہے ۔
جیسے ایک حکایت ہے کہ ایک نائن نے ایک بی بی کو نتھ اتار کر منہ دھوتے دیکھا ۔ نتھ اتارنے سے سمجھی کہ بیوہ ہوگی ۔ دوڑی ہوئی اپنے شوہر کے پاس آئی کہ کیا بیٹھا ہے ،فلانے کے پاس ( یعنی اس بی بی کے شوہر کے پاس )دوڑ اور خبر کر کہ تمہاری بی بی بیوہ ہو گئی ہے ۔ وہ نائی بھی ایسا ہی احمق تھا پہنچا پھروہ شخص بے وقوف ہی تھا ۔ نائی سے پوچھا کہ گھر میں خیریت ہے ؟ نائی نے کہا حضور اور تو سب خیریت ہے مگر آپ کی بیوی بیوہ ہو گئی ہے ۔بس یہ خبر سن کر آپ نے رونا پیٹنا شروع کر دیا ایک دوست ان سے ملنے آئے پوچھا ، خیر تو ہے یہ رونا پیٹنا کیوں ہو رہا ہے ؟ کہنے لگے کہ میری بیوی بیوہ ہو گی ہے ۔ اس نے کہا خدا کے بندے ہوش سے کام لے ۔ جب تو زندہ سلامت موجود ہے تو بیوی کیوں کر بیوہ ہوگئی ؟ تو آپ جواب میں کہتے ہیں کہ یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں مگر گھر سے آیا ہے معتبر نائی ۔
بس یہی حالت آج کل اکثر لوگوں کی ہو رہی ہے کہ وہ اپنے عیوب کو اچھی طرح جانتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ ہم کسی قابل نہیں ۔ مگر لوگوں کی تعظیم وتکریم سے یہ خیال کرتے ہیں کہ معتبر لوگ میرے معتقد ہیں شاید ان لوگوں کو میری حالت مجھ سے زیادہ معلوم ہو اور میرے اندر وہ عیوب بھی شاید نہ ہوں جو مجھ کو معلوم ہوتے ہیں ۔ بس وہی قصہ ہو رہا ہے کہ گھر سے آیا ہے معتبر نائی۔