عوام قدر کر کے تم کو کیا دیں گے ۔ صرف دنیا کے چند ٹھیکرے تو اس کی اس کمال کے سامنے ہستی کیا ہے جو علم سے آپ کو حاصل ہے ؎
خلیل آسا در ملک یقیں زن
نوائے لا احب الاٰفلین زن
زر ونقرہ چیست تا مجنوں شوی
چیست صورت تا چنیں مفتوں شوی
مگر افسوس آج کل علماء میں یہ مذاق بہت ہی کم رہ گیا ہے ۔ آج کل اکثر لوگ علم کے بعد بھی عوام کی نظروں میں جاہ اور قدرو منزلت کے طالب ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کی خاطر وہ بعض دفعہ ایسے کاموں میں پڑ جاتے ہیں جن کو اندر سے ان کا دل قبول نہیں کرتا ۔ بعض لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں جگہ رہ کر عوام کی نظروں میں ہماری وقعت نہ ہو گی تو اس جگہ کو چھوڑنا چاہئے اور ایسی جگہ کی تلاش میں رہتے ہیںجہاں ان کی وقعت زیادہ ہو ۔
بعض لوگوں کو اس کا اہتمام ہوتا ہے کہ جب ہم بازار میں یا کسی اور جگہ جاویں تو دوچار آدمی ہمارے ساتھ چلنے والے ہوں تنہا چلنا انہیں گوارا ہوتا ۔حالانکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ راستہ میں کچھ صحابہ ہوجاتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بعج کو آگے کر دیتے اور بعض کو پیچھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب کے آگے نہ چلتے تھے ۔ اسی طرح مجلس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جہاں جگہ پاتے وہیں بیٹھ جاتے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نشست کے لیے کوئی ممتاز جگہ نہ تھی ۔ حتیٰ کہ باہر سے آنے والوں کو یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس مجمع مین کون سے ہیں جب تک کہ وہ خود یہ سوال نہ کرتا ’’ من محمد فیکم‘‘ کہ تم میں محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم ) کون سے ہیں ؟ صحابہ اس کے جواب میں فرماتے ’’ ہذا الابیض المتکیٔ‘‘ یعنی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم یہ ہیں گورے چٹے جو سہارا لگائے بیٹھے ہیں۔
جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے تو مدینہ والے شہر سے باہر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اس وقت حضورت ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی عمر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے دواڑھائی برس ہی کم تھی مگر ان کے قوٰی حضور جیسے نہ تھے ۔ اسی لیے وہ باوجود چھوٹے ہونے کے دیکھنے میں بڑے معلوم ہوتے تھے ۔ کیونکہ ان کے بال زیادہ سفید ہو گئے تھے ۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قویٰ نہایت اچھے تھے ۔ اس وقت آپ کا ایک بال بھی غالباً سفید نہ ہوگا کیونکہ وصال کے وقت حضور کے چند گنتی کے بال سفید تھے ۔اور ہجرت کا واقعہ وصال سے دس برس پہلے کا ہے ۔ تو اس وقت ایک بال بھی شاید آپ کا سفید نہ ہو گا ۔ اس لیے اکثر لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کر رسول اﷲ سمجھے ۔ پس سب لوگ حضرت ابو