ایک میاں جی لڑکوں کو پڑھایا کرتے تھے ایک دن لڑکوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آج کسی طرح چھٹی لینی چاہئے ۔ سب کے اتفاق سے یہ بات قرار پائی کہ جب میاں جی آویں تو ایک لڑکا غمگین صورت بنا کر ان سے یہ کہے کہ حضور خیر تو ہے آج آپ کا چہرہ کچھ اترا ہوا ہے پھر سب لڑکے ایک ایک کر کے یہی کہیں ۔ چنانچہ میاںجی آئے اور ایک لڑکا منہ بنا کر ان کے پاس گیا اور کہا ، حضور مزاج کیسا ہے ؟ خیر تو ہے کچھ چہرہ اترا اترا معلوم ہوتا ہے ۔ میاں جی نے اس کو تو ڈانٹ دیا کہ جا بیٹھ ، کام میں لگ۔ میں تو اچھا خاصاہوں ابھی پیٹ بھر کے کھانا کھا کر آیا ہوں وہ تو بیٹھ گیا دوسرا پہنچا میاں جی نے اسے بھی دھتکار دیا ۔ تیسرا پہنچا اب میاں جی کو وہم ہونا شروع ہوا اسے بھی ٹال دیا مگر نرمی سے ۔ اب وہ تیزی نہ رہی چوتھا پہنچا ، اب تو میاں جی کو قوی شبہ ہوگیاکہ واقعی میرا چہرہ اتر رہا ہے ۔جبھی تو سب کے سب مزاج پرسی کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد ایک اور آیا ۔ بس اب تو ان کو خاصا بخار ہو گیا اور کپڑا اوڑھ کر گھر چل دئیے اور مکتب بند کردیا لڑکوں کو چھٹی مل گئی ۔
اب ملا جی گھر میں پہنچے آہ آہ کرتے ہوئے ۔ بیوی نے کہا کہ کیا ہوا ابھی تو یہاں سے چھے خاصے گئے تھے ۔ ملاجی کہاں تھے ڈنڈا لے کر اس کے سر ہو گئے کہ تو تو یہی چاہتی ہے کہ میں مر جاؤں اور تو دوسرا نکاح کر ے ۔ یوںکہتی ہے کہ تم تو ابھی اچھے خاصے گئے تھے ۔ میں اچھا خاصا گیا تھا ؟ اسی وقت میرا چہرا اترا ہوا تھا لڑکوں کو معلوم ہو گیا اور تجھے نہ معلوم ہوا کہ میں بیمار ہوں ۔
غرض اس قصہ میں آس پاس کے بھی آگئے اور پوچھنے لگے کہ ملا جی کیوں غصہ ہو رہے ہو ۔ ملا جی نے بیوی کی شکایت کی ۔ جب ایک شخص نے کہا کہ میاں جی تمہاری عقل کہاں ہے ۔ یہ تو لڑکوں کی ایک شرارت تھی ۔ وہ تم سے چھٹی لینا چاہتے تھے اور وہ ابھی راستہ میں کہتے جارہے تھے کہ آج ہم نے خوب چھٹی لی ۔ تم بے وقوف تھے ان کے بہکاے میں آگئے ۔ تب ذرا ملا جی کے حواس درست ہوئے ۔ صاحبو! اس حکایت میں تو ہر شخص اس ملا کو بے وقوف بتانے کو تیار ہوگا مگر اس کی خبر نہیں کہ اس بے وقوفی میں ہم سب مبتلا ہیںکہ جہاں چار آدمیوں نے ہمارے ہاتھ پیر چومنے شروع کئے اور ہم کو سچ مچ اپنی بزرگی کا وہم ہونے لگا ۔
مولانا فرماتے ہیں ؎
اینش گوید نے منم انباز تو
آنش گوید نے منم ہمراز تو
اوچو بیند خلق را سر مست خویش
از تکبر مے رود از دست خویش
اشتہار خلق بند محکم ست
بن او از بند آہن کے کم است