غرض اس غلطی میں لوگ بہت مبتلا ہیں ۔ اسی واسطے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز میں اردو یا فارسی میں دعا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اگرچہ وہ اسی درجہ کا ترجمہ ہو جو عربی میں پڑھی جاتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ اگرچہ غیر عربی میں دعا پڑھنا نماز کے اندر حرام ہے ۔مگر حرمت سے فساد تو لازم نہیں آتا پس اصل مدار مضمون پر ہے ۔ جس مضمون کی دعا عربی میں پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی اسی مضمون کی دعا اردو فارسی میں پڑھنے سے بھی فاسد نہ ہو گی ۔صرف ممانعت ہوگی ۔ وہ بھی اس وقت جب کہ قصداً ایسا کیا ہو ۔اور اگر بھولے سے یا غلبۂ حال میں ایسا ہوجائے کہ اردو یا فارسی کی دعا زبان سے نکل جائے تو کراہت بھی نہ ہو گی بشرطیکہ مضمون مفسد نہ ہو ۔
ہمارے حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک خادم تھے جن کا نام مولوی تجمل حسین ہے ۔جب وہ مکہ معظمہ گئے تو ایک دن صبح کی نماز شافعی امام کے پیچھے پڑھ رہے تھے ۔ شافعیہ صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے ہیں ۔ حنفیہ اس وقت خاموش رہتے مولوی تجمل حسین پر قنوت سننے سے ایک حالت طاری ہوئی کہ سب تو خدا سے مانگ رہے ہیں اور میں بت کی طرح خاموش کھڑا ہوں ۔ ان سے نہ رہا گیا اور انہوں نے پند نامہ کے یہ اشعار شروع کر دیئے ؎
پادشاہا جرم مارا درگزار
ما گنہگاریم و تو آمر زگار
تو نکو کاری ومابد کردہ ایم
جرم بے اندازہ بیحد کردہ ایم
بر در آمد بندئہ بگریختہ
آبروئے خود بعصیاں ریختہ
انہوں نے یہ پوری نظم پرھ ڈالی اور لوگ چاروں طرف سے متوحش ہو گئے کہ نماز میں یہ کیا ہونے لگا بعد نماز کے لوگوں نے کہا کہ ان کی نماز باطل ہوگئی ۔ دوبارہ پڑھنی چاہئے ۔ یہ خبر حضرت حاجی صاحب کو پہنچی ۔ حاجی صاحب پر نہ معلوم کیا کیا حالتیں گزری تھیں وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے غلبۂ حال میں ایسا کیا ہے ۔ فرمایا کہ نہیں نماز باطل نہیں ہوئی ۔ واقعی صاحب حال کو وہی سمجھ سکتا ہے جس پر گزری ہو ۔اور جس پر یہ حالتیں نہ گزری ہوں وہ کیا سمجھ سکتا ہے ؎
اے ترا خارے بپا نشکستہ کے دانی
حال شیرانے کہ شمشیر بلا بر سر خورند
عارف شیرازی فرماتے ہیں ؎
شب تاریک و بیم وموج گردابے چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا
یعنی جو شخص ساحل پرآرام سے کھڑا ہے وہ اس شصخ کی حالت کو کیا جانے