ولا تخاطبنی فی الّذ ین ظلمواانّھم مغرقون۔
کہ ان ظالموں کی بابت تم مجھ سے (شفاعت کے طور پر)کچھ مت کہنا کیونکہ یہ سب غرق کئے جائیں گے۔اس سے خود معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام میں شفقت ورحمت بہت زیادہ تھی کہ اگر ان کو ممانعت نہ کی جاتی تو وہ شفاعت وغیرہ کرتے۔چانچہ اپنے لڑکے کے بارہ میں ان کو کچھ کہنے کا موقع مل گیا تو انہوں نے عرض کر دیا کہ اے پروردگار آپ وعدہ تھاکہ یترے اہل وعیال کو نجات دوں گا اور میرا لڑکا بھی تو میرے اہل وعیال میں داخل ہے وہ کیوں ہلاک ہو گیا وہاں سے ارشاد ہوا کہ وہ آپ کے اہل میں داخل نہیں کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہ تھے۔
اور عیسیٰ علیہ السلام کی بابت حدیث میں آتا ہے کہ وہ آخر زمانہ میں نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی سلطنت کاانتظام فرمادیں گے اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے۔اگر ان میں سلیقہ سلطنت نہیں تو وہ آخر زمانہ میں جب کہ مسلمان کی سلطنت نہایت کمزور ہوگی اس کا انتظام کیسے کر لیں گے ؟
الغرض انبیاء علیہم السلام میں تمام کمالات مجتمع ہوتے ہیں یہ او ر بات ہے کہ ایک جوہر سے کسی وقت وہ کام نہ لیں لیکن کسی کمال سے ان کو خالی بتا دینا یہ سخت غلطی ہے حق تعالیٰ جس صفت سے کام لینے کا ان کو حکم فرماتے اس سے کام لیتے ہیں اور جس صفت سے جس وقت کام لینے کا حکم نہیں ہوتااس سے کام نہیں ۔ ان کی حالت یہ ہوتی ہے ؎
زندہ کنی عطائے تو وربکشی فدائے تو
دل شدہ فدائے تو ہرچہ کنی رضائے تو
مولانا فرماتے ہیں ؎
گر بعلم آئیم ما ایوان اوست
وزبجہل آئیم ما زندان اوست
گر بخواب آئیم مستان وئیم
وربہ بیداری بدستاں وئیم
من چو کلکم درمیان اصبعین
نیستم در صف طاعت بین بین
بنگر اے دل گر تو اجلال کیستی
درمیان اصبعین کیستی
رشتہ در گردنم افگندہ دوست
می برد ہر جاکہ خاطر خواہ اوست
انبیاء علیہم السلام بدون حکم کے کچھ نہیں کرتے جس کو جو حکم ہوتا ہے وہی بجا لاتے ہیں اسی لیے ان کی شانیں مختلف ہوتی ہیں مگر ہر شان محبوب ہے کیونکہ محبوب کی رضاکے موافق ہے ۔ ایک عارف فرماتے ہیں ؎
بگوش گل چہ سخن گفتۂ کہ خنداں است