Deobandi Books

تعمیم التعلیم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

16 - 86
کے ہاتھ میں رہ گئی ہے ۔اگر آج وہ مسلمانوں کے ہاتھ غلہ بیچنا موقوف کردیں تو وہ نہایت پریشان ہو جائیں ۔میرا دل چاہتا ہے کہ ہر شہر اور گاؤں اور قصبہ میں غلہ کی تجارت کرنے والے مسلمان بھی ہونے چاہئیں ۔تاکہ کسی وقت مسلمانوں کو پریشانی لاحق نہ ہو ۔غرض ایسی حکمت وعلت کا اول تو علماء ہی کو معلوم ہونا ضروری نہیں ۔پھر اگر معلوم بھی ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نہیں بتلاتے ۔
بھلا اگر تم ڈاکخانہ میں جا کر بابو سے پوچھو کہ ایک تولہ کا محصول کیا ہے ؟ اور وہ تم کو بتلادے کہ تین پیسے محصول ہے ۔پھر تم اس سے یہ سوال کرو کہ تین پیسے محصول ہونے کی کیا وجہ ہے تو اس کے جواب میں کیا کہے گا کہ صاحب میں قانون کے مطابق کام کرنے ولال ہوں اگر تم تین پیسے سے کم ٹکٹ لگاؤ گے میں لفافہ کو بیرنگ کردوں گا ۔آگے میں کچھ نہیں جانتا ۔اس کی وجہ کیا ہے اور کیا نہیں ۔ہاں اگر تم کو میرے کہنے کا اعتبار نہ ہو تو میں تم کو قواعد ڈاک کی کتاب دکھا سکتا ہوں کہ ایک تولہ کا محصول وہی ہے جو میں نے بتلایا اس سے زیادہ تم مجھ سے سوال نہیں کرسکتے ۔
افسوس ! ہے کہ ڈاکخانہ کا بابو یہ جواب دے دے تو سب اس کو تسلیم کر لیں اور علماء کے ایسے ہی جواب کو تسلیم نہ کیا جاعے ۔آخر دونوں صورتوں میں فرق میں فرق کیا ہے ؟ مگر آج کل تو ہر شخص دین کے بارہ میں اپنے کو مجتہد سمجھتا ہے کہ اپنی عقل سے علتیں گھڑ کر ان پر احکام کا مدار سمجھتا ہے ۔چنانچہ بعض کا مقولہ سنا گیا ہے کہ نماز کے لیے وضو اس لئے فرض کیا گیا تھا کہ اہل عرب اونٹوں کے چرانے والے وحشی لوگ تھے ان کے منہ پر غبار اور ہاتھ پر پیشاب کی چھینٹیں بھی پڑتی تھیں ۔اس لیے ان کو حکم کیا گیا کہ نماز سے پہلے وضو کیا کرو ۔ چنانچہ وضو مین انہی اعضا کا دھونا فرض کیا گیا جو اکثر کام کاج میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔باقی ہم لوگ تو مہذب ہیں ۔اکثر اوقات دستانے اور موزے چڑھائے رہتے ہیں ۔پھر شیشہ دار مکانوں میں بیٹھے ہیں ہمارے ہاتھ پیروں کو گرد بھی نہیں پہنچتی ۔اس لیے ہم پر وضو فرض نہیں ۔
یہ دلیل ویسی ہی ہے جیسے ایک سرحدی پٹھان نے بیان کی تھی ایک سرحدی پٹھان ریل سے اتراتو اس کی بغل میںدومن کا ایک بورا بھی تھا جس کی بلٹی وغیرہ اس نے کچھ نہ کرائی تھی ۔جب ٹکٹ دینے لگا تو با بو نے کہا اس بورے کی بلٹی لا ئو یہ کہنے لگا کہ بلٹی کیا ہو تا ہے ؟ بابونے کہا کہ یہ اس سامان کا ٹکٹ ۔اس نے پھر وہی ٹکٹ دکھا دیا جو پہلے دکھا یا تھا ۔بابونے کہا کہ یہ تو تمہا را ٹکٹ ہے اس کا ٹکٹ لاؤ ۔وہ کہنے لگا نہیں ! یہی ٹکٹ ہمارا ہے اور یہ یہی ٹکٹ اس کا ہے ۔بابق نے کہا کہ پندرہ سیر سے زیادہ سامان کے لیے دوسرا ٹکٹ ہونا چاہئے تو آپ فرماتے ہیںکہ ہمارا یہی پندرہ سیر ہے ۔ریلوے نے پندرہ سیر جا جو قانون مقرر کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر سامان آدمی بلا تکلف خود اٹھا سکے وہ معاف ہے ۔اور ہندوستانی آدمی پندرہ سیر ہی اٹھا سکتا ہے اس لیے ان نے پندرہ سیر لکھ دیا اور ہم دومن اٹھا سکتے ہیں ۔اس لیے ہمار یہی پندرہ سیر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تمہید 1 1
3 علم سحر 1 2
4 ومن شر الننفّٰثٰت فی العقد 2 2
5 نیت کا اثر 2 2
6 علت اور شریعت 6 2
7 انما البیع مثل الربوا 7 2
8 اصول شریعت 8 2
9 فاعتبرو ایا اولی الابصار 9 2
10 عجب وکبر 11 2
11 عقلی علت بعض لوگ 12 2
12 حکمتِ احکام 15 2
13 نسبت مع اﷲ 17 2
14 حرمت کا مدار 18 2
15 بے وضو نماز 20 2
16 مولوی کی تعریف 21 2
17 بسم اﷲ پڑھنا 22 2
18 نفع کی چیز 24 2
19 سفلی وعلوی عمل 24 2
20 توجہ ومسمریزم کی حقیقت 25 2
21 علوی عمل کی حدود 28 2
22 سحر کی تاثیر 29 1
23 کشف کے خطرات 31 22
24 تعلیم نسواں کی ضرورت 32 22
25 عجائب پرستی 34 22
26 غلو فی الدین 35 22
27 عوام کا اعتقاد 36 22
28 واعظین کا مذاق 37 22
29 مجذوب اور سالک کا فرق 42 22
30 کاملین کے کمالات 43 22
31 سحر کے اثرات 46 22
32 علم محمود 47 22
33 مناظرے کی خرابیاں 48 22
34 مضر ونافع علوم 53 22
35 علماء کی غلطی 55 22
36 عوام کی غلطی 56 22
37 علماء کی کوتاہی 59 1
38 علماء کو ہدایت 64 37
39 علم کی کیمیا 66 37
40 علم کی فضیلت 68 37
41 صحبت کا اثر 70 37
42 امراء کی کوتاہی 71 37
43 علم کی قدر 72 37
44 انتخاب طلباء 74 37
45 علم دین کی برکت 75 37
46 رفع اشکالات 77 37
47 مفید علم 82 37
48 کام کی باتیں 84 37
Flag Counter