ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
وہ اگر چاہے تو بے کار و بے باراں زمین سے چشمے نکال دے چاہے پانی کے چشمے نکال دے چاہے آج کی دُنیاوی ضروریات کے مطابق تیل کے چشمے نکال دے۔ وہ چاہے تو زمین سے معدنیات، ہیرے جواہرات کی کانیں اور مفید گیسیں برآمد فرمادے اور نہ چاہے تو جتنی کوشش کرلی جائے سب اَکارت جائے اور کچھ بھی برآمد نہ ہو، بلکہ چشمے بھی خشک ہوکر رہ جائیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ سب کچھ اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ جو اِرادہ فرماتا ہے وہ سب کچھ ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس کی ذاتِ پاک کو ''مسبِّبُ الاسباب'' کہا جاتا ہے یعنی وہ ہر چیز کا سبب اور اس کی وجہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے پھر بندہ اپنا وقت عزیز کیوں اُس کی ذات کے سوا کسی اور طرف لگ کر اطاعت کے بجائے نافرمانی پر صرف کرتا ہے اور کیوں اپنی قلبی توجہ، اپنی قوت و صلاحیت اس کی اطاعت پر نہیں لگاتا کہ جس سے اُس کی دُنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ اِس آیت کے آخری جملہ کا ترجمہ عرض کیا گیا ہے کہ : ''ہم نے ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ان کی گرفت فرمائی۔'' اِس مبارک جملہ میں بتلایا گیا ہے کہ آفتیں در اصل انسان کی اپنی کرتوت، معصیت و نافرمانی کی وجہ سے آتی ہیں۔ ربِّ ذوالجلال کی ذات بہت غنی ہے۔ جیسا کوئی کرتا ہے وہ بھی اُس کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ فرماتا ہے۔ اس لیے اس کی ذات پاک سے تعلق جوڑو، تاکہ اس کا معاملہ تمہارے ساتھ مہربانی کا ہوجائے۔ اس مبارک رکوع کی چوتھی، پانچویں اور چھٹی آیت میں بھی باری تعالیٰ نے بندوں کو معصیت سے منع فرمایا ہے، اپنی جلالت ِ شان اور بے نہایت قدرت کا ذکر فرمایا ہے۔ انسانوں کی غفلت کی حالت بتلائی ہے کہ وہ دن کو بھی نشۂ غفلت میں سرشار رہتے ہیں اور رات کو بھی، حالانکہ خدا کی گرفت اُس پر ہروقت ہوسکتی ہے جب بندہ غافل اور مبتلائے معصیت ہو اور جس وقت بھی خدا کا غضب جوش میں آجائے، معاذ اللہ۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے : ''تو کیا بستیوں والے اِس سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر رات کو سوتے سوتے ہمارا عذاب آجائے اور کیا بستیوں والے اس سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ہمارا عذاب دن چڑھے آجائے، جبکہ وہ کِھلاریوں میں لگے ہوں۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی نہ نظر آنے والی تدبیر سے مطمئن ہوگئے ہیں، اللہ کی نہ نظر آنے والی تدبیر سے وہی بے خوف ہوتے ہیں جو خسارہ