ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
قدرت ادا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں وغیرہ کی صحیح تعداد یاد نہ ہو تو غور و فکر سے کام لے کر ایک اندازہ متعین کرے پھر اُن کی قضاء کرے اور ادائیگی کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کرسکتا تو جتنا ہوسکے تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کرے۔ اور خواہ بندوں کے حقوق ہوں جیسے قرض و دین، میراث، کسی بھی قسم کا جانی و مالی نقصان اور ایذاء رسانی وغیرہ اُن کو ممکنہ حد تک ادا کرنے کی کوشش کرے یا حقدار سے معافی حاصل کرے۔ ( معارف القرآن ج ٢ سُورہ نساء آیت ١٨) ٭ عرفہ کے دن کی فضیلت ہر شخص کو اُس ملک کی تاریخ کے اعتبار سے حاصل ہوگی جس ملک میں وہ شخص موجود ہے پس جو شخص کسی ایسے ملک میں ہے کہ وہاں کی تاریخ سعودی عرب سے ایک دن پیچھے ہے تو اُس ملک والے کے لیے سعودی عرب کی تاریخ کا اعتبار نہ ہوگا کہ سعودیہ میں دس ذی الحجہ یعنی بقر عید کا دن ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ عید الاضحی ہر شخص اپنے ملک کی تاریخ کے اعتبار سے کرے گا ،اسی طرح عرفہ بھی عید الاضحی سے ایک دن پہلے شمار ہوگا (کذا یفھم من عامة الاصول وھو ظاھر جدا وان لم یکن ظاھرا علی من کان ضدا) ٭ بعض لوگ عرفہ کے دن کسی ایک مقام پر اکٹھے اور جمع ہونے کو ثواب سمجھتے ہیں اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اِس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے، لہٰذا اِس سے پرہیز کرنا چاہیے (ہدایہ، فتح القدیر و عامة الکتب) ٭ حجاجِ کرام کے حق میں عرفات میں عرفہ کے دن کا روزہ عام حالات میں مکروہ ہے، تاکہ ضعف کی وجہ سے وقوف عرفات کے اعمال میں کمی واقع نہ ہو اور غروب ہوتے ہی مزدلفہ کی طرف چلنا آسان رہے، البتہ جس حاجی کو اپنے بارے میں یقین ہو کہ روزہ رکھنے سے وقوفِ عرفات اور دعائیں وغیرہ مانگنے اور سورج غروب ہونے کے فورًا بعد مزدلفہ روانگی میں کوئی خلل نہ ہوگا اُس کے لیے مکروہ نہیں بلکہ یہ روزہ اُس کے حق میں بھی مستحب ہوگا ۔ (معارف السنن ج ٦ ص ١٠٨، ١٠٩، درس ترمذی ج ٢ ص ٥٨٨، ٥٨٩) ٭ عشرہ ذی الحجہ اور نو ذی الحجہ کے روزوں کے مسائل دوسرے نفل روزوں کی طرح ہیں۔ (شامی و ہندیہ) تکبیر تشریق (٩ تا ١٣ ذی الحجہ) : جیسا کہ پہلے گزرچکا کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی عبادت و فضیلت والا مہینہ ہے اور اس مہینہ کا پہلا عشرہ