ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
راہ میں جہاد کا اُن کا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی جو یہ کیفیت تھی قلبی اور ایمانی اِس کو جمادیا اُن کے دلوں میں کہ بس یہ عمر بھر کے لیے اِسی طرح رہے گی یہ کیفیت، تو جب ساری عمر کے لیے اسی طرح ہوگئی یہ کیفیت اُس کا ذکر کیا ہے لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اللہ تعالیٰ راضی ہوگئے اُن مومنین سے اِذْیُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْھِمْ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کے دلوں میں بات تھی وہ ظاہراً دِکھادی سب کو ،خود تو جانتا ہے وہ، ظاہراً سب کو پتا چل گیا، اُن پر سکینہ نازل فرمادیا۔ سکینہ ایک بہت بڑی دولت ہے : ''سکینہ'' ایک ایسی چیز ہے کہ دل کو بالکل سکون اور اطمینان ہو، یہ بہت بڑی دولت ہے۔ ایک بادشاہ ہو اور غیر مطمئن ہو یہ بھی ہوسکتا ہے، ایک مزدور ہو اور مطمئن ہو یہ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سکینہ خدا کی طرف سے جو سکون نازل کردیا جائے وہ تو بہت ہی بڑی ایک چیز ہے، اُس کا ذکر فرمایا کہ جب اِن لوگوں نے یہ کیا تو ہم نے سکینہ نازل فرمادیا، اُن کو یہ جزا دی۔ اب حضرت عثمان کے دور میں جب اُن پر اعتراضات ہوئے تو معترضین نے یہ واقعہ تو سارا حذف کردیا اور یہ اعتراض کیا کہ جس وقت یہ بیعت لی جارہی تھی اُس وقت حضرت عثمان موجود نہیں تھے۔ گویا بیعت ِرضوان کرنیوالوں میں حضرت عثمان کا نام نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈہ میں چلتی رہی چیز۔ پھر صحابہ کرام نے ہی بتلایا سمجھایا کہ وہ تو رسول اللہ ۖ کے کام سے گئے تھے بلکہ سب مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ ہوکر کام کیلیے گئے تھے۔ حضرت عثمان کی خصوصی فضیلت : یہ بھی بتلایا کہ رسول اللہ ۖ نے اُن کی غیر موجودگی میں یہ کیا کہ اپنے ایک دست مبارک کو یہ فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اپنے دوسرے دست ِمبارک کو فرمایا کہ یہ میرا ہاتھ ہے اور میں بیعت لیتا ہوں عثمان سے۔ کسی کی غیر موجودگی میں رسول اللہ ۖ کا یہ اطمینان ظاہر فرمانا کہ یہ اُس کا ہاتھ ہے اور میں بیعت لے رہا ہوں گویا اُس کی بیعت بالکل ایسی ہے جیسے وہ موجود ہیں۔ اور دوسروں نے تو بیعت جو کی ہے وہ اپنے ہاتھ سے کی ہے یہ بیعت وہ ہوئی کہ جس میں رسول اللہ ۖ نے اپنے دست ِ مبارک کو اُن کا ہاتھ بتلایا۔ تو غور کرو تو یہ بہت بڑی