ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
تھوڑی ہوتی تھی اُس سے بہت سارے مسائل استنباط کرلیتے تھے تم، یہ بھی مَلَکہ میں نے تمہیں دے دیا تھا۔ ساری چیزیں قابلیتیں بھی جو ایک معلم کے لیے ہونی چاہئیں وہ صلاحیت تمہارے اندر موجود تھی۔ نعمتیں بتائیں گے ظاہری نعمتیں باطنی نعمتیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہ ظَاھِرَةً وَّبَاطِنَةً اور تم پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بارش کردی ہے، بہادِی ہیں۔ تو نعمتیں اُس پر جتلائی جائیں گی، اُسے وہ مان جائے گا کہ ہاں اے اللہ آپ نے یہ نعمتیں مجھ پر کی تھیں، مجھے سیکھنے کے لیے بھی بڑے اچھے اچھے اُستاد دیے تھے جو مجھے سِکھاتے تھے وہ بھی بڑے قابل لوگ تھے۔ پھر مجھے علم بڑا اچھا آگیا اور پختہ علم آیا اور پھر میں نے علم کی خدمت کی اور بہت کی، پڑھنا پڑھانا سب جاری رکھا، یہ سب مانے گا وہ۔ نعمتوں کی کیا قدر دانی کی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا کیا کیا ؟وہ کہے گا کہ یا اللہ میں نے اِس کو سیکھا تھا اور تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہ اے اللہ میں نے اس کو سیکھا پھر آگے سکھلایا اور قرآن کی تلاوت کی۔ اللہ تعالیٰ جب یہ بات اُن کی سنیں گے۔ قرآن کا لفظ آخری بات وہ قرآن کا لفظ لارہا ہے۔ قرآن جو ہے یہ اللہ کی صفت ہے اور سارے علوم کا منبع اور سرچشمہ ہے ۔ اس سے آگے کوئی اور علم نہیں ہے۔ علم کا کوئی اور ذریعہ اور کوئی منبع نہیں ہے اِس کے علاوہ۔ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ جو اللہ نے قرآن اُتاردیا اب اِس کو چھوڑکر کوئی اور رسّی ہو جس سے ہم اللہ کو حاصل کرلیں اور اس کی رضا ہمیں نصیب ہوجائے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ بس ایک دستور اِس دُنیا میں اللہ نے ایسے ہی بنادیا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قرآن کو مضبوطی سے پکڑنا پڑے گا وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا اللہ کی رسی کو تھامے رکھو۔ حدیث میں بھی یہی آتا ہے قرآن کو پکڑے رکھنا اِسے نہ چھوڑنا، تو علم کا جو سب سے مضبوط ستون ہے رسّی ہے حَبْلُ اللّٰہِ مَمْدُوْد مِّنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ آسمان سے زمین کی طرف آئی ہوئی ہے اللہ کی کتاب۔ اے اللہ یہ میں نے سیکھی تھی یہ میں نے حاصل کی تھی اور اس کو میں نے آگے سکھلایا تھا۔ اللہ تعالیٰ عالم کو جھٹلادیں گے : اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کَذَبْتَ جھوٹ بولتے ہو غلط کہتے ہو وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ