ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
'' رسول اللہ ۖ نے فرمایا (علاوہ ''لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ'' پر ایمان لانے کے) اللہ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں اور فرض کی ہیں پس جو شخص ان میں سے تین کو ادا کرے تو وہ اُس کو (پورا) کام نہ دیں گی جب تک سب کو ادانہ کرے، نمازَ زکوٰة اور رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج ''۔ فائدہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر نماز، زکوٰة ، روزہ سب کرتا ہو مگر حج فرض نہ کیا ہو تو اُس کی نجات کے لیے کافی نہیں (''حیٰوة المسلمین'' از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ فَقَالَ اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوْا۔ (مسلم، نسائی، مسند احمد) '' حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ایک دن خطبہ دیا اور اُس میں فرمایا کہ اے لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کردیا ہے لہٰذا اِس کو ادا کرنے کی فکر کرو۔'' حج کس پر فرض ہے ؟ ہر مسلمان صاحب ِ استطاعت پر حج کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ ۔( سورہ آل عمران آیت ٩٧) '' اللہ تعالیٰ کی (رضا) کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اُس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو شخص (اللہ تعالیٰ) کا حکم نہ مانے تو (اللہ تعالیٰ کا اِس میں کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ''۔ تشریح : اس میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحتًا حج کے فریضہ کا منکر ہو، حج کو فرض نہ سمجھے، اُس کا دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہونا ظاہر ہے، اس لیے '' وَمَنْ کَفَرَ'' کا لفظ اس پر صراحتًا صادق ہے اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے لیکن باوجود استطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے، اُس پر لفظ '' وَمَنْ کَفَرَ'' کا اطلاق تہدید وتاکید کے لیے ہے کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ آیت کے اس جملہ میں اُن