ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ نماز سمجھائی سکھائی جو بھی عبادت ہوگی، اگر اِس امت کا ہے تو اِس اُمت کے طریقہ پر اور اگر پہلی کسی اُمت کے آدمی کا واقعہ ہے تو اُس اُمت کے مطابق جو نبیوں نے تعلیم دی ہوگی وہ سکھلائی گئی اُسے، وہ بتلائی گئی اُسے۔ تو جب وہ اقرار کرے گا کہ ہاں یہ تو تھیں۔ اللہ کی طرف سے سوال : پھر اللہ کے دربار سے سوال ہوگا فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا پھر تم نے اِن نعمتوں کے ملنے کے بعد کیا کیا، ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا تم نے۔ اِن نعمتوں کی کس طرح سے شکرگزاری کی تم نے، قدردانی کیا کی وہ بتائو ۔ جب نعمت کسی کو ملتی ہے تو اُس نعمت کے دینے والے کی شکرگزاری ضروری ہے۔ اُس کا شکریہ بجالاناہے، اُس کی قدردانی کرے، نعمت کی بھی قدر کرے، نعمت جس سے ملی ہے اُس کی بھی قدر کرے۔ شہید کا جواب : تو وہ کہے گا قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتّٰی اُسْتُشْھِدْتُّ کہ اللہ میں نے آپ کے راستہ میں جہاد کیا اور اتنا کیا اتنا کیا اِس حد تک کیا کہ شہید کردیا گیا۔ کیونکہ اس سے آگے کوئی چیز ہوتی نہیں۔ یہ کہہ ہی نہیں سکتا انسان کہ اتنا کیا اتنا کیا کہ واپس خیریت سے گھر آگیا کیونکہ یہ آخری حد نہیں ہے اس کی، اتنا کیا اتنا کیا کہ اتنا مال غنیمت حاصل کیا، یہ بھی نہیں کہہ سکتا یہ بھی آخری حد نہیں کیونکہ اس سے آگے بھی درجے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی کمال ہے کہ اتنا کیا اتنا کیا کہ اتنا مال غنیمت ہم نے دشمن سے حاصل کیا، اتنا کیا اتنا کیا کہ اتنے علاقے ہم نے دُشمن کے فتح کرلیے۔ اتنا کیا اتنا کیا کہ اتنے دُشمنوں کو قیدی بنالیا ہزاروں قیدی کرلیے۔ اتنا کیا اتنا کیا کہ اُن کے علاقوں کو ایسے ایسے تباہ و برباد کردیا، اُن کا اسلحہ برباد کیا۔ یہ سارے درجے ہیں لیکن اِن درجوں سے آگے بھی درجہ ہے ،ایک ایسا درجہ ہے کہ اُس سے آگے پھر کوئی درجہ نہیں ہے۔ وہ درجہ وہ ذکر کرے گا کہ اتنا کیا اتنا کیا کہ میں شہید کردیا گیا بس، یعنی جو میرے پاس جان تھی جس جان کی بدولت یہ پچھلی مثالیں جتنی میں نے دیں، یہ اُس کی بدولت ہوتی تھیں بس وہ جان بھی قربان کردی۔ مال غنیمت ملتا تو اُس سے جان فائدہ اٹھاتی، علاقے فتح ہوتے تو اُس سے جان فائدہ اٹھاتی، دُشمن قیدی بنتے تو جان فائدہ اٹھاتی، گھر واپس آتا تو میری جان فائدہ اٹھاتی باقی زندگی سے۔ وہ فائدہ