ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
کہ اِس کے دل میں کیا ہے ،یہ اللہ جان سکتا ہے اُس کو پتا ہے اور کسی کو پتا نہیں ہے اس چیز کا۔ اس لیے ہمیں اپنا معاملہ اللہ سے درست رکھنا ہے سب سے پہلے، دُوسروں کی پروا نہیں کرنی۔ بس اے اللہ تیرے اِس دین کے ہم خادم ہیں اور تیرے دین کی خدمت کررہے ہیں، تیرے اِس کلمہ کو بلند کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں اور اِس کا بدلہ تجھ سے لینا ہے اور کسی سے نہیں لینا، بس یہ نیت رکھیں ،تُو اس کا بدلہ اس طرح دے کہ تو ہم سے راضی ہوجا، تو ہم سے خوش ہوجا، تیری رضا مقصد ہے اور کچھ مقصد نہیں ہے، بس یہ نیت ہونی چاہیے۔ باقی عالم تو کہا جائے گا خود بخود ہی، عالم کو کوئی کوچوان یا ٹیکسی ڈرائیور تھوڑا ہی کہے گا اُسے عالم ہی کہیں گے اُسے ٹیکسی ڈرائیور تو نہیں کہیں گے، اُسے رکشہ چلانے والا بھی نہیں کہے گا کوئی، وہ تو خود بخود کہا جائے گا لیکن اِس کے پیش ِنظر یہ نہیں ہونا چاہیے، نہ اُسے اُس لقب پر اُس عزت پر خوشی ہونی چاہیے، نہ اِس کی طلب ہونی چاہیے۔ کوئی کسی وقت عزت کررہا ہے اِس کی تو بھی اُس کی توجہ نہ ہو اور کوئی نہیں کررہا ہے تو بھی اُس کی اہمیت نہ ہو کہ اِس نے کیوں نہیں کیا ،اُس نے مصافحہ کیوں نہیں کیا، اُس نے میرے جوتے کیوں نہیں اُٹھائے۔ اُس نے جوتے سیدھے کیوں نہیں کیے، اِس طرف التفات نہ ہو۔ بس ان چیزوں سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ استغناء ہونا چاہیے طبعیت میں۔ اور اَجر وہ صرف اللہ سے لینا ہے، کسی سے نہیں لینا۔ بزرگوں کا عمل : ہمارے بزرگوں اور اکابر کے تو عجیب عجیب واقعات اور معاملات ہیں۔ ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ کا تو ہمیں یاد ہے ہم دیکھتے تھے کہ وہ کسی سے خدمت نہیں لیتے تھے، طالب علم سے بھی نہیں، شاگرد سے بھی خدمت نہیں لیتے تھے، اُن کے جوتے جو ہیں وہ کوئی کوئی اُٹھاسکتا تھا ،ورنہ کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا اُن کے جوتے اُٹھانے کی، صرف ہم اُٹھاسکتے تھے اپنی اولاد کو بس اجازت تھی۔ اُن کی اولاد اُن کے جوتے اُٹھالے اور رکھ دے، یہ تو حق ہے باپ کا، ٹھیک ہے باپ کے تو خادم ہیں ہم، اس میں کوئی بڑائی بھی نہیں آتی باپ کو، یہ تو اولاد کررہی ہے۔ باقی کسی کو اُن کے جوتے چھیڑ نے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔ اور کھڑے ہوجاتے تھے ہر ایک کے لیے ،اپنے لیے کھڑا ہونا کسی کا پسند نہیں کرتے تھے۔ جب ہم نے بخاری شریف اُن سے شروع کی اور دورۂ حدیث کا سبق شروع ہوا تو پہلے دن جب وہ تشریف لائے تو ہم سب