ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
ایک سال کے روزوں کے برابر شمار کیا گیا ہے (ابن ماجہ، ترمذی، بیہقی، قال الترمذی حدیث غریب، الترغیب والترہیب) اسی لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ ٨ذی الحجہ تک روزے رکھنا مستحب اور٩ ذی الحجہ کا روزہ مسنون ہے (عمدة الفقہ) ۔ مذکورہ آیت کی تفسیر اور حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کے مہینہ کے پہلے دس دنوں کی بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔ دراصل یہ عشرہ حج کا عشرہ ہے اور اِن دنوں کا خاص عمل حج ہے لیکن حج مکہ معظمہ جاکر ہی ہوسکتا ہے پس جو لوگ وہاں نہیں جاسکتے اُن کو اپنی جگہ رہتے ہوئے اِن دنوں میں خاص فضیلت عطا کردی گئی ہے لہٰذا اِن مبارک دنوں میں غیر ضروری تعلقات سے ہٹ کر اللہ جل شانہ کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہیے اور ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا اور ذکر و فکر، تسبیح و تلاوت، صدقہ، خیرات اور نیک اعمال میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا اور گناہوں سے بچنا چاہیے نیز روزوں کا بھی جہاں تک ہوسکے اہتمام کرنا چاہیے۔ پہلے عشرہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا : عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِذَا رَأَیْتُمْ ھِلَالَ ذِی الْحِجَّةِ وَاَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ یُّضَحِّیَ فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہ وَاَظْفَارِہ (مسلم فی الاضاحی واللفظ لہ، ترمذی، نسائی، ابوداود، ابن ماجہ، دارمی فی الاضاحی ومسند احمد) ''اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جب ذی الحجہ کا چند نظر آجائے (یعنی ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے) اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا اِرادہ ہو تو وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔'' (مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداو'د، ابن ماجہ، دارمی، مسند احمد) وضاحت : اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے ناخن نہ کاٹے اور سر بغل اورناف کے نیچے، بلکہ بدن کے کسی حصہ کے بال بھی نہ کاٹے۔ لیکن یاد رہے کہ ایسا کرنا مستحب ہے ضروری نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص قربانی سے پہلے ایسا کرلے تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے اور اس سے قربانی میں کوئی