ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
خلل نہیں آتا ،البتہ قربانی سے پہلے اگر چالیس روز گزرگئے ہوں تو پھر ناخن کاٹنا اور ناف کے نیچے اور بغل کے بالوں کی صفائی ضروری ہے۔ (احسن الفتاویٰ، شامی) یاد رہے کہ کم از کم ایک مٹھی کی مقدار ڈاڑھی رکھنا ہمیشہ واجب ہے اور اس سے کم کرنا یا مونڈنا باتفاقِ اُمت جائز نہیں۔ (شامی) ٩ ذی الحجہ کے روزہ کے فضائل و احکام : احادیث میں ٩ ذی الحجہ کے روزے کی بیش بہا فضیلت بیان کی گئی ہے، ایک روایت میں ہے : عَنْ اَبِیْ قَتَادَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ '' یُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ وَالْبَاقِیَةَ '' (مسلم فی الصیام واللفظ لہ، مسند احمد) وقد روی المنذری ھذا الحدیث من وجوہ فی الترغیب و الترہیب ج ٢ ص ٦٧ تا ٦٩) ''حضرت ابوقتادة سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے عرفہ (یعنی ٩ ذی الحجہ) کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا آپ ۖنے فرمایا (٩ ذی الحجہ کا روزہ رکھنا) ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔''(مسلم، احمد) وضاحت : گناہوں کی دو قسمیں ہیں ایک کبیرہ (بڑے) گناہ دوسرے صغیرہ (چھوٹے) گناہ، حدیث میں جن گناہوں کی بخشش کا ذکر ہے اُن سے صغیرہ گناہ مراد ہیں مگر صغیرہ گناہوں کی معافی بھی کوئی معمولی نعمت نہیں اور کبیرہ گناہوں کے بارے میں اصولی و تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ بغیر توبہ و ندامت کے معاف نہیں ہوتے (البتہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمادیں تو الگ بات ہے) اور حقوق العباد حق ادا کیے بغیر یا صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے (معارف القرآن ج ٢، سورہ نساء آیت ٣١) اور سچی توبہ کے تین رکن ہیں (١)اول یہ کہ اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری کا ہونا، حدیث میں ارشاد ہے: اِنَّ التَّوْبَةَ مِنَ الذَّنْبِ اَلنَّدْمُ، یعنی گناہ سے توبہ ندامت کا نام ہے (کنز العمال) (٢) دوسرا رُکن توبہ کا یہ ہے کہ جو گناہ کیا ہے اُس کو فورًا چھوڑدے اور آئندہ بھی اُس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔ (٣) تیسرا رکن یہ ہے کہ فوت شدہ چیزوں کی تلافی کی فکر کرے یعنی جو گناہ سرزد ہوچکا ہے اُس کی جتنی تلافی اُس کے قبضہ میں ہے اُس کو پورا کرے خواہ وہ اللہ کے حقوق ہوں جیسے قضاء نمازیں، روزے، زکوٰة، حج، قربانی، صدقۂ فطر، قسم کا کفارہ، جائز منت وغیرہ اِن کو حسب