ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
٢) تحیة المسجد : یہ نماز اُس شخص کے لیے سنت ہے جو مسجد میں داخل ہو، مسجد میں آنے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔ مسئلہ : اگر مسجد میں جاکر کوئی شخص بیٹھ جائے اور اُس کے بعد تحیة المسجد پڑھے تب بھی کچھ حرج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے پڑھ لے۔ مسئلہ : اگر مسجد میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہو تو صرف ایک مرتبہ تحیة المسجد پڑھ لینا کافی ہے خواہ پہلی مرتبہ پڑھ لے یا اخیر میں۔ مسئلہ : اگر مکروہ وقت ہو تو صرف چار مرتبہ ان کلمات کو کہہ لے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اور اُس کے بعد کوئی درود شریف پڑھے۔ مسئلہ : دو رکعت کی کچھ تخصیص نہیں۔ اگر چار رکعت پڑھی جائیں تب بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر مسجد میں آتے ہی کوئی فرض نماز پڑھی جائے یا اور کوئی سنت ادا کی جائے تو وہی فرض یا سنت تحیة المسجد کے قائم مقام ہوجائے گی یعنی اِس کے پڑھنے سے تحیة المسجد کا ثواب بھی مل جائے گا اگرچہ اس میں تحیة المسجد کی نیت نہیں کی گئی۔ (٣) اشراق کی نماز : اِس کا طریقہ یہ ہے کہ جب فجر کی نماز پڑھ چکے تو جائے نماز پر سے نہ اُٹھے۔ اسی جگہ بیٹھے بیٹھے درود شریف یا کلمہ یا کوئی وظیفہ پڑھتا رہے اور اللہ کی یاد میں لگا رہے۔ دُنیا کی کوئی بات چیت نہ کرے نہ دُنیا کا کوئی کام کرے، جب سورج نکل آئے اور اُونچا ہوجائے تو دو رکعت یا چار رکعت پڑھ لے تو ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ اُونچائی کی حد ایک نیزہ ہے اور یہ اُس وقت ہوتی ہے جب سورج کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چندھیانے لگیں۔ اور اگر فجر کے بعد کسی دُنیا کے دھندے میں لگ گیا پھر سورج اُونچا ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھی تو بھی درست ہے لیکن ثواب کم ہوجائے گا۔ (٤) چاشت کی نماز : جب سورج خوب زیادہ اُونچا ہوجائے اور دھوپ تیز ہوجائے تب کم سے کم دو رکعت پڑھے یا اس سے