ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
ملک و قوم سے پہلے اِسلام کا درجہ ہے : ہمارے ہاں تو دستور یہی ہے ''ملک و قوم کی خدمت'' اس سے اگلا جو اعلیٰ درجہ خدمت کا ہے'' اِسلام کی خدمت ''وہ نہیں ہے۔ یہاں بولنے کا دستور نہیں ہے حکومتوں کو۔ ہم اور آپ جو مدرسوں کے اور دینی ماحول کے رہنے والے ہیں وہ تو اِس طرح سوچتے ہیں اسلام کے لیے قربانی، اسلام کے لیے یہ کیا، گو ملک و قوم کے لیے بھی قربانی جو ہے وہ اللہ کے ہاں معتبر سمجھی جاتی ہے لیکن پہلا درجہ اسلام کا ہے، تو وہ یہ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے نہیں وہ جوتونے کی تھی نیت وہ ہوگئی۔ شہید کی نیت کی خرابی اور جہنم کا حکم : ارشاد ہوتا ہے ثُمَّ اُمِرَ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ پھر اُس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اُس کو اُس کے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ منہ کے بل چہرے کے بل، اتنی ذلت کے ساتھ گھسیٹا جائے گا، یہ بھی نہیں کیا جائے گا کہ اُس کو کسی گھوڑے پر گاڑی پر گدھے پر بٹھاکر لے جائیں ،منہ کے بل گھسیٹا جائے گا انتہائی ذلت اور تذلیل کے ساتھ جیسے دُنیا میں بھی ہوتا ہے کہ جب پولیس کسی کی ذلت اور تذلیل کرنے پر آتی ہے تو پھر تھپڑ گھونسے لاتیںٹُھڈے یہ چلتے ہیں اور پھر گھسیٹتے ہیں، یہی وہاں پر فرشتے اُس کے ساتھ یہ سلوک کریں گے کہ اُس کو منہ کے بَل گھسیٹیں گے اور اُس کو لا کرکے جہنم میں ڈال دیں گے کہ جائو یہ ہے تمہارا ٹھکانہ، کیوں ہے یہ ٹھکانہ، کہ ساری چیزیں صحیح تھیں سارے اعمال اُس کے دُرست تھے بس ایک باطنی عمل جو نیت ہے وہ درست نہیں کہ وہ صرف اتنا ہوتا ذرا سا تبدیل ہوجاتا ،میں جو جہاد کررہا ہوں اے اللہ اِس کا بدلہ تجھ سے لوں گا اور تیری رضا کے لیے کررہا ہوں اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بس اتنی سی اگر بات ہوجاتی تو یہ ساری چیزیں بھی مل جاتیں اُس کو، اور اللہ کے ہاں کامیابی بھی ہوجاتی۔ دُنیا میں اُسے بہادر ہی کہا جاتا پھر بھی دُنیا والے کہتے کہ بہادری سے مرا بڑا کمال تھا اُس میں، پھر بھی چرچا ہوتا پھر بھی اعزاز ملتا، لیکن اِس نیت کی وجہ سے جو آخرت کے اعزازات ہیں وہ بھی مِل جاتے اس کو۔ یہ نیت غلط ہوگئی اِس کی وجہ سے دُنیا کے اعزازات مِل گئے آخرت کا اعزاز چھن گیا اُس سے بلکہ آخرت کی ذلّت ملی۔ اعزاز چھنّا کم درجہ کی چیز ہے اور ذلت مِلنا یہ بہت بُری بات