ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
شامل ہوئے ہیں اُن میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ اندازِ بیان : حدیث شریف میں آتا ہے لَا یَدْخُلُ النَّارَ اِنْشَآئَ اللّٰہُ اَحَد یہ انداز بیان ہے جناب رسول اللہ ۖ کا، کہ آپ بالکل دعوے سے جو بات فرمانی چاہتے ہیں اُس میں بھی اُمید کا لفظ لے آتے ہیں اَرْجُوْا مجھے اُمید ہے اور لَعَلَّ شاید ایسے ہو، اسی طرح یہاں بھی ہے اِنْشَائَ اللّٰہُ جہنم میں انشاء اللہ اُن لوگوں میں سے جنہوں نے بیعت ِرضوان کی ہے درخت کے نیچے بیٹھ کر، کوئی بھی نہیں جائے گا۔ بیعت ِرضوان کی وجہ اور حضرت عثمان پر اعتراض کا جواب : حضرت آقائے نامدار ۖ نے ایک کام سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا مکہ مکرمہ میں ،تو معترضین نے اُن کے دور میں یہ اعتراض کیا کہ بیعت کرنے والوں میں تو وہ نہیں تھے۔ تو یہ نہیں خیال کیا کہ بیعت نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟ بیعت نہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ اُن کو آقائے نامدار ۖ نے کام سے، بات چیت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں بھیجا تھا اور یہ اُمید تھی کہ اُن کے رشتہ دار وہاں کافی ہیں، اُدھر کوئی بد تمیزی کریں یا جان سے ہی ماردیں، شہید کردیں ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب وہ گئے تو اُن لوگوں نے گھیرا ڈال لیا۔ اب یہ جو دیکھا صحابہ کرام نے کہ اُن کے گرد بہت سے لوگ ہوگئے ہیں تو وہ نظر نہیں آئے تو اِس سے ایک تردّد اور پریشانی ہوئی کہ کیا کیا اِن کے ساتھ۔ رسول اللہ ۖ نے ایک بیعت لی کہ اگر ایسی صورت ہوئی اور لڑائی کی نوبت آئی گی تو ہم لڑیں گے بھاگیں گے نہیں چاہیں ماریں جائیں، تو کوئی صحابی تو ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے موت پر بیعت کی۔ موت تک بیعت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ضرور مرہی جائیں گے، موت تک بیعت کا مطلب یہ ہے کہ ہم جمیں رہیں گے اگر لڑائی ہوئی چاہیں مرجائیں۔ تو اِن حضرات نے اُس وقت ایک پریشانی کے عالم میں جبکہ وطن سے دُوری بھی تھی، سفر بھی کئی دن کا تھا مدینہ منورہ کا، اب تو وطن مدینہ منورہ ہوچکا تھا اور یہ علاقہ جو تھا یہ قریش کے قبضہ میں تھا۔ تو اُس وقت سارے مسلمانوں نے جوش کا مظاہرہ کیا، بڑے پُر جوش تھے اور بڑا اطمینان تھا اُنہیں، وہ سمجھتے تھے کہ بالکل ابھی ہمیں حکم ملے ابھی حملہ کریں ابھی ختم کیے جائیں، یہ قوتِ ایمانی اور قوت ِرُوحانی اور عزم اور خدا کی