ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
جس مصیبت کے بعد خداوند کریم کی ذاتِ پاک کی طرف رجوع کرنے کی دولت مل جائے وہ ہی قوم یا اشخاص ایسے ہوتے ہیں جو عند اللہ مقبول ہوتے ہیں اور نجات پاجاتے ہیں۔ جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ نعمت کے حاصل ہونے پر غرور و غفلت بڑھ جائے اور مصیبت کے وقت شکایت باری تعالیٰ لب پر آئے تو وہ لوگ بڑے خسارہ میں رہتے ہیں (خدا پناہ میں رکھے) کیونکہ ایک تو مصیبت کی تکلیف پہنچی پھر وہ بھی اجر اور خدا کی خوشنودی سے خالی۔ رب العالمین نے جو انسانوں کا خالق ہے جس نے فطرت انسانی پیدا فرمائی ہے اُس نے قرآن عزیز میں دو طرح کی فطرتیں بیان فرمائی ہیں۔ (١) وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْس قَنُوْط یعنی انسان ایسا ہے کہ جب اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس اور بالکل نا اُمید ہوجاتا ہے۔ (٢) اور دُوسری فطرت اس طرح کی ہوتی ہے کہ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ یعنی جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ اِس کے بعد تیسری آیت میں حق تعالیٰ نے اپنا معاملہ جو مخلوق کے ساتھ ہوا کرتا ہے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا : ''او ر اگر بستیوں والے ایمان لے آئے ہوتے اور پرہیزگاری اختیار کی ہوتی تو ہم اُن پرآسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے تو جھٹلایا، تو ہم نے اُن کی کرتوتوں کی پاداش میں اُن کی گرفت فرمائی۔'' آسمانی برکات سے مراد یہ ہے کہ ہر طرح کی برکتیں نازل کرتے اور آفتوں سے محفوظ رکھتے۔ زمین کی برکتوں سے جو آسمانی برکتوں سے ملی ہوئی ہوں یہ مراد ہوگی کہ ہر قسم کی آسانیاں پیدا فرمادی جاتی ہیں۔ خدا کے لیے دونوں کام آسان ہیں وہ چاہے تو اِسی زمان و مکان کو جنت کا نمونہ بنادے اور وہ چاہے تو جہنم کا نمونہ بنادے۔ آسمان سے بارش برسائے، بارش مناسب ہو، صحیح وقت پر ہو، ہرجگہ ہوجائے تو بارانی فصلیں بھی درست ہوجاتی ہیں اور اگر بارش بے وقت اور بہت زیادہ ہوجائے تو پیدا شدہ فصلیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں۔ یہ نمونہ تو ہم ہر سال ہی دیکھتے رہتے ہیں اور اِس کا مقابلہ تو کیا اِس سے بچائو بھی ممکن نہیں رہتا۔