ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
لگے ساٹھ سال لگے، اللہ جانے کتنی عمر ہوئی ہوگی۔ جتنا عرصہ لگا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں اُس کی، سب بیکار ،کیونکہ تیرے اندر اخلاص نہیں تھا تیری نیت خالص نہیں تھی ثُمَّ اُمِرَبِہ حدیث میں آتا ہے۔ عالِم کے لیے جہنم کا حکم : اِس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا فرشتوں کو، اب عالمِ دین کو جس کی اتنی قدر تھی کہ لوگ اس کی توہین کا تصور نہیں کرسکتے تھے اُس کے شاگرد اُس پر جان دیتے تھے، دُنیا دار اُس کو بہت بڑی چیز سمجھتے تھے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ منہ کے بَل اُس کو گھسیٹتے ہوئے لے جایا جائے گا حتی کہ اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، تو اس عالم دین کی کوئی قدر نہیں کوئی حیثیت نہیں۔ نیت کی اصلاح کی ضرورت ہے : تو ہم لوگ جو ہیں آپ حضرات جو طالب علم ہیں دین کے، بہت خوش نصیب ہیں اور اللہ کے راستہ میں تکلیفیں اُٹھارہے ہیں لیکن اپنی نیت پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو محنت آپ لوگ کررہے ہیں آپ پڑھنے والے کررہے ہیں اور جو پڑھانے والے کررہے ہیں وہ اپنی نیت پر نظر رکھیں، بس یہ کرلیں۔ تو اللہ نے فرمایا جو تیرا مقصد تھا مجھے عالم کہا جائے وہ کہہ دیا گیا۔ تجھے دُنیا نے عالم بھی کہا تیری کتابیں بھی ہیں تیری شروحات بھی ہیں وہ پڑھی پڑھائی جارہی ہیں، سب کچھ سلسلہ چل رہا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں اس کا۔ اُسے قبر میں ثواب بھی نہیں ملے گا اس کی نیت صحیح نہیں تھی۔ یہ ساری چیزیں تب ہوں گی جب نیت صحیح ہوگی۔ اب اس کا آخرت میں پتا چلتا ہے دُنیا میں پتا نہیں چل سکتا، یا اُس آدمی کو پتا ہے یا اللہ کو پتا ہے کہ اِس کی نیت کیا ہے یا میری نیت کیا ہے؟ اُس آدمی کے دوسرا آدمی کتنا قریب ہی کیوں نہ ہو اُسے نہیں پتا چل سکتا۔ مُرید کو پیر کا پتا نہیں چل سکتا، پیر کو مُرید کا پتا نہیں چل سکتا، اُستاد کو شاگرد کا پتا نہیں چل سکتا، شاگرد کو اُستاد کا پتا نہیں چل سکتا حتمی، اندازہ ہوسکتا ہے بس حسنِ ظن ہوسکتا ہے۔ حُسن ظن کہا جائے گا اُسے، یقین نہیں۔ یقین تو ہو ہی نہیں سکتا پتا نہیں چل سکتا، باپ کو بیٹے کا پتا نہیں چل سکتا، بیٹے کو باپ کا پتا نہیں چل سکتا، ایک دوسرے کا جزو ہیں حالانکہ ،باپ بیٹے کا، بیٹا باپ کا جزو ہے لیکن اس کے دل میں کیا ہے یہ باپ بیٹے کے بارے میں یقین سے نہیں بتلاسکتا اور بیٹا باپ کے بارے میں یقین سے نہیں بتلاسکتا