ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
افتتاحی خطاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب نے ٢٤ شوال/٢٧ نومبر کو بعد از نمازمغرب جامعہ مدنیہ جدید میںطلباء سے افتتاحی خطاب فرمایا ۔ قارئین کرام کی خدمت میں وہ خطاب پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ) الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوة والسلام علی خیر خلقہ سیدنا و مولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین اما بعد ! حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث شریف نقل کی گئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یُقْضٰی عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ رَجُل اُسْتُشْھِدَ ١ شہید کی پیشی : قیامت کے دِن جن آدمیوں کے خلاف پہلے فیصلہ کیا جائے گا اُن میں ایک شہید ہوگا، اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہوگا اور جہاد کرتے کرتے شہید ہوگیا ہوگا، اُس کو اللہ کے دربار میں پیش کیا جائے گا فَعَرَّفَ نِعَمَہ فَعَرَفَھَا اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں اُس پر وہ یاد دلائی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ یہ انعامات کر رکھے تھے، یہ یہ نعمتیں دی تھیں، تمہیں ہاتھ دیے تھے، چلنے کے لیے پائوں دیے تھے اور اُن میں قوت دی تھی، دیکھنے کے لیے آنکھیں دی تھیں، سواری کے لیے گھوڑا دیا تھا پھر میدان میں تلوار دی تھی پھر کھانے پینے کی نعمتیں اَوڑھنے بچھونے کی نعمتیں گھربار کی نعمتیں اور ہزاروں قسم کی نعمتیں اُس کو یاد دلائی جائیں گی اور وہ یاد آجائیں گی اُس کو ،وہ مانے گا کہ ہاں اے اللہ !یہ نعمتیں مجھ پر کی تھیں آپ نے، یہ انعامات آپ نے مجھ پر فرمائے تھے۔ پھر سب سے بڑا انعام وہ ہدایت ہوگی جو اُس کو اللہ نے دی تھی۔ ایمان ، صحیح اور غلط کی پہچان کہ یہ حق ہے اور یہ باطل ہے، تب ہی تو جہاد کے لیے نکلا تھا۔ اگر حق اور باطل کا اُسے پتہ نہ ہوتا تو پھر جہاد کے لیے کیسے نکلتا، پھر مُسلمانوں کے ساتھ کیسے نکلتا پھر کافروں کے مقابلے میں کیوں نکلتا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو علم عطا فرمایا تھا، سمجھ دی تھی حق اور باطل کی، یہ ساری ١ مشکٰوة شریف ج١ ص ٣٣