ماہنامہ الحق ستمبر 2017 ء |
امعہ دا |
|
وفضل کے بحر ذخار کو ایک گو نہ بند لگا دیا۔ مگر پھر بھی تقریر و خطابت ، تصنیف و تالیف بالخصوص عصر حاضر کے جدید مسائل پر قومی اور عصری کمیٹیوں اور مجالس مذاکرہ کی شکل میں آپ نے علم اور دین کی عظیم الشان خدمات سر انجام دیں۔ شاید اس میں بھی اللہ کی یہی حکمت تھی کہ آپ مدارس کے شبانہ روز تدریسی بندھنوں سے آزاد رہ کر ان دائروں میں اسلام کی ترجمانی کر سکیں، جو ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی اور اس لحاظ سے آپ کا مقام عصر حاضر کے علماء میں بہت ممتاز تھا کہ اسلامی مباحث و علوم کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے آپ عصرِ حاضر کے اٹھائے گئے شبہات پر سیر حاصل روشنی ڈالتے اور عہدِ جدید کے اذہان اور اس دور کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے۔ ہر تحریر و تقریر کا محور اور مرکزی نقطہ اسلامی مباحث و عقائد کی حقانیت کو کلامی انداز میں اُجاگر کرنا اور دلنشین کرانا ہوتا، وہ شریعت اسلامیہ کے لازوال عقائد و اصول کو نہایت معقول اور محققانہ انداز میں پیش فرماتے ۔ مغرب اور مغربیت پر ان کی نشترزنی بڑی جارحانہ ہوتی۔ وہ اس ضمن میں جب مسٹر اور ملا کا موازنہ کرتے تو عجیب نکتہ آفرینی فرماتے کہ مجمع متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ ان کا اندازِ درس بھی محاضرات اور لیکچرز کا ہوتا جسے ان کے تلامذہ نوٹ کرتے، وہ کسی بھی مشکل اور اہم موضوع کے عجیب عجیب عنوانات قائم کر کے تحلیل و تجزیہ کرتے۔ ماہنامہ الحق کو سب سے زیادہ یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے اپنے آغاز ہی سے علامہ مرحوم کے علوم و مقالات کو پہلی بار شائع کیا۔ حضرت علامہؒ کے اکثر تصانیف و رسائل کا زیادہ تر حصہ اولاً الحق میں شائع ہوتا رہا اور اس طرح مولانا کے علمی فیوضات سے بیرونی دنیا کو استفادہ و تعارف کا موقع ملا۔ اُن کی مادری زبان پشتو تھی مگر اُردو میں نہایت شُستہ تقریر فرماتے، تحریر کے ساتھ تقریر کا ایسا ملکہ کم ہی پشتون علماء کو حاصل ہوا۔ وہ کسی علمی موضوع پر گفتگو کرتے تو ساری مجلس پر اسلامی عظمت و حقانیت کا رنگ چھا جاتا۔ وہ اسلام کی حقانیت کے ترجمانی اورعلمی دنیا کا سرمایۂ افتخار تھے اور جب چلے گئے تو اپنا بدل اور نظیر نہیں چھوڑ سکے کہ اس دور میں ایسے وسیع النظر علماء تو کیا ان سے بہت کم درجے کے اصحاب علم و دانش کا وجود عنقا بنتا جا رہا ہے۔ حق تعالیٰ مولانا مرحوم کو ان کی علمی عظمتوں کی طرح وہاں بھی بلند و ارفع درجات سے نوازے اور انکے پسماندگان کو صبرجمیل نصیب ہو ۔ اللھم افض علیہ من شابیب رحمتک وعفوک واد خلہ الجنۃ واستقبنا من علومہٖ وبرکاتہ آمین (الحق گست ۱۹۸۳ء) ____________________________