سر اٹھایا کہ گویا دوسرا سجدہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ پھر آپ نے دوسرا سجدہ فرمایا اور اتنا لمبا سجدہ فرمایا کہ گویا سر اٹھانے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ آپ شدت غم اور جوش کے ساتھ سانس لیتے اور روتے تھےاور فرماتے تھے:اے پروردگار! تونے میرے ساتھ وعدہ کیا تھاکہ میری موجودگی تک میری امت کو عذاب نہ دے گااور تو نے یہ وعدہ کیا تھااے اللہ! کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گےمیں ان کو عذاب نہ دوں گا،اب ہم استغفار کرتے ہیں۔ پھر جب آپ دو رکعت نماز سے فارغ ہوگئے تو سورج نکل آیا۔پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثناء بیان فرمائی، پھر فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےدو نشانیاں ہیں، انکو کسی کی موت یا پیدائش کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ لہٰذا جب سورج گرہن یا چاند گرہن ہوجائے تواللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔
زبدۃ:
یہ واقعہ اکثر محدثین کے نزدیک سن 10 ہجری کا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ بات مشہور تھی کہ سورج اور چاند کو گرہن کسی بڑی شخصیت کی موت یا پیدائش کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ اتفاق سےجس زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کاانتقال بھی اسی زمانہ میں ہوا تھا۔اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید فرمائی۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی دم توڑ رہی تھی (یعنی قریب الوفات تھی) تو آپ نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیااور اپنے سامنے ہی رکھ لیا۔ پس وہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی وفات پا گئی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ باندی حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا چلا کر رونے لگی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم