علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ یہود کی مخالفت کرواور نویں یا گیارھویں کا روزہ بھی رکھاکرو۔ایک روایت میں ہے کہ اگر میں اگلے سال زندہ رہاتو نویں تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔اس لیے تنہا صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھنا چاہیےبلکہ بہتر ہےکہ نویں یا گیارھویں تاریخ کا اضافہ کریں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے۔
بعض حضرات نے لکھاہےکہ دس محرم کو حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کنارہ پر آئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی تاریخ کو آسمان پر اٹھائے گئے،حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی اور اسی دن امت کاقصور معاف ہوا، حضرت یوسف علیہ السلام کو اسی روز کنویں سے نکالا گیا، اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کومرض سے شفاء ملی،حضرت ادریس علیہ السلام اسی دن آسمان پر اٹھائے گئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اسی دن ولادت ہوئی اور اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت عطاء ہوئی۔
(عمدۃ القاری: ج8 ص233 باب صیام یوم عاشوراء)
زبدۃ:
اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ کثرت کےساتھ نفلی روزے رکھنا ثابت ہیں جیسے شعبان کے اکثر روزے،ہر مہینہ میں تین روزے،ہر پیر اور جمعرات کا روزہ،جمعہ کے دن کاروزہ، عرفہ کاروزہ، عاشوراء کا روزہ وغیرہ۔ اسی طرح دوسرے حضرات انبیاء علیہم السلام کا معمول روزوں کے بارے میں مختلف رہاہے۔حضرت نوح علیہ السلام بارہ مہینے مسلسل روزے رکھتے تھے،حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ اور دودن افطار فرماتے تھے۔