راحت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
آپ زیادہ تر خاموش ہی رہتے، بغیر ضرورت کے بات نہ فرماتےتھے۔آپ کی تمام گفتگوابتداء سے اخیر تک منہ بھر کرہوتی تھی۔(یعنی نوک زبان سےکٹے ہوئے لفظ ادانہ فرماتے تھے) جامع کلمات کے ساتھ گفتگوفرماتےتھے(جامع کلمہ وہ ہوتاہےکہ لفظ توکم ہوں مگر معنی بہت زیادہ ہوں ) آپ کا کلام بالکل ایک دوسرے سے ممتاز ہوتاتھا، نہ اس میں فضول بات ہوتی تھی اور نہ ہی کوتاہی ہوتی۔ آپ نہ تو سخت مزاج تھےاور نہ ہی کسی کی تذلیل فرماتے تھے۔
آپاللہ کی نعمتوں کی قدر فرماتے تھے اگرچہ وہ بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہوں، کبھی نعمت کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی چیزکی نہ مذمت فرماتے اور نہ ہی زیادہ تعریف فرماتے (البتہ کبھی کبھی اظہارِ رغبت یاکسی کی دلداری کے لیے خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمادیتے) آپ کو دنیا اور نہ ہی دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے غصہ آتاتھا، البتہ حق کے معاملہ میں کوئی زیادتی کرتاتو پھر آپ اس قدر غصہ ہوتے کہ کوئی آپ کے غصہ کی تاب نہ لاسکتااور کوئی روک بھی نہ سکتاتھاجب تک کہ آپ اسکا انتقام نہ لےلیں۔ اپنی ذات کے لیے نہ ناراض ہوتے اور نہ ہی انتقام لیتے تھے۔
جب کسی جانب اشارہ فرماتے توپورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے، جب کسی چیزپر تعجب کااظہار فرماتے تو ہاتھ کوپلٹ لیتے تھے، جب بات کرتے توہاتھ کوملالیتے(اور کبھی کبھی ہاتھ کوحرکت بھی دیتے) اور اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر مارتے۔ جب آپ کسی سے ناراض ہوتے تواس سے منہ پھیرلیتے اور بے توجہی فرماتے یادرگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سےآنکھیں جھکالیتے۔ ہنسی میں صرف مسکراتےتھےاور اس وقت آپ کے دندان مبارک اولے کی طرح سفید اور چمکدار معلوم ہوتے تھے۔