حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری زید مجدہ
شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحمدُ للہِ ربِّ العٰلمین والصلوٰۃُ والسلامُ علیٰ سیِّدِ الْمرْسَلِیْن وعلیٰ آلِہ واَصْحابِہ اَجمعیْنَ اَمَّا بَعدُ!
”شمائل“ شمال یا شمیلہ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں سیرت، عادت اور عمدہ طبیعت۔
”شمائل النبی“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک، آپ کی وضع قطع، آپ کا لباس و پوشاک، آپ کی نشست وبرخاست اور آپ کے شب و روز کو بیان کیا جاتا ہے۔ سیرت طیبہ کے مضمون کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”ابواب المناقب“ کے شروع میں اکتیس ابواب میں بیان فرمایا ہے مگر انہوں نے محسوس کیاکہ ان ابواب سے سیرت کا حق ادا نہیں ہوا، اس لیے مستقل رسالہ تالیف فرماکر سنن کے ساتھ ملحق فرما دیا۔ گویا یہ رسالہ ابواب المناقب کا” تتمہ“ ہے، علیحدہ تصنیف نہیں، جس طرح کتاب العلل سنن کا مقدمہ لاحقہ ہے مستقل تصنیف نہیں۔
امام ترمذی نےشمائل کو چھپن ابواب پر تقسیم فرمایا ہے، جس میں تین سو ستانوے حدیثیں ہیں، ان میں سے دو سو تیرہ حدیثیں سنن میں آچکی ہیں، صرف چوراسی روایتیں نئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ترمذی شریف کے اس حصے کو جو قبولیت عطا فرمائی ہے وہ سیرت کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ عربی اور اردو زبان میں اس کی بہت سی شرحیں لکھی گئیں۔ اکثر شرحیں اہل علم و فضل کے لیے ہیں، حضرت مولانا محمد الیاس گھمن دامت برکاتہم نے بھی اس کی شرح ”زبدۃ الشمائل“ کے نام سے تحریر