مدارسِ دینیہ انسانیت کی فیکٹریاں ہیں: اور اس کی عملی مشق سے پیداشدہ بصیرت و گہرائی علمِ وراثت ہے، مگر علمِ وراثت نصیب ہوتا ہے علمِ دراست ہی سے۔ پس مدارس علمِ دراست سکھاتے ہیں اور علمِ وراثت کا راستہ صاف کرتے ہیں۔ اگر یہ مدارسِ دینیہ نہ ہوں تو نہ علمِ دراست ملے نہ علمِ وراثت۔ پس یہ مدارس اس لیے قائم کیے جارہے ہیں کہ جو علوم ہمیں انبیا سے وراثت میں ملے ہیں ان کو انسانوں تک پہنچا کر انسانوں کو انسان بنایا جائے۔ اس لیے یہ مدارس گویا سچے انسانوں کو ڈھالنے کی فیکٹریاں ہیں۔ پس سائنس کی فیکٹریاں اور مشینریاں سامان ڈھالتی ہیں اوریہ مدارس کی فیکٹریاں انسان ڈھالتی ہیں۔ جس کے ظاہر و باطن علوم انبیا سے روشن ہیں۔ مادّی علوم محض ظاہری ٹیپ ٹاپ اور نمایش سکھاتے ہیں اور یہ حقیقی علوم (علومِ شرعیہ) باطن کی آراستگی سکھاتے ہیں۔ مادّی علوم صورت کا جمال بخشتا ہے اور روحانی علم سیرت کا جمال عطا کرتا ہے اور محض صورت کا جمال ایک عارضی حسن و جمال ہے، جو جاتا آتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن مٹ جائے گا۔ اسے تو دو دن بخار ہی آکر مٹا دیتا ہے۔ یہ تمام رعنائی اور زیبائی ختم ہوجاتی ہے اور اگر کچھ بھی نہ ہو تو بڑھاپے سے یہ ظاہری جمال کے سارے نقش و نگار زائل ہوجاتے ہیں اور بڑھاپا بھی نہ آئے تو موت تو کہیں گئی ہی نہیں، وہ تو ساری صورتیں اور خوب صورتیاں مٹا کر رہتی ہے۔ البتہ سیرت پر اس کا بس نہیں چلتا۔ سیرت دنیا میں جیسی بھی بنالی جائے اُسے موت نہیں مٹا سکتی۔ وہ قبر میں، حشرمیں اور اس کے بعد برابر قائم رہتی ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے:
تُحْشَرُوْنَ کَمَا تَمَوْتُوْنَ، وَتَمُوْتُوْنَ کَمَا تَحْیُوْنَ۔
اُٹھائے جائوگے تم جس حال میں تم مروگے اور مروگے تم جس حال میں تم زندہ رہوگے۔
حشر تمہارا اس حالت پر ہوگا جس حالت پر موت آئی اور موت اس حالت پر آئے گی جس پر زندگی گزاری ہے۔ آج کل نوجوان صورت کے بنانے سنوارنے میں مصروف ہیں۔ حالاں کہ اس چیز کے بنانے سے کیا فائدہ جو بنی ہے بگڑنے کے لیے۔ یعنی محض صورت آرائی شہوت رانی ہے اور سیرت آرائی مردانگی ہے۔ پس آپ اس صورت کو کہاں تک بنائیں گے جو بگڑنے ہی کے لیے بنی ہے؟ اس کو کہاں تک بنائیں گے سنواریں گے۔ بنانا اس چیز کا