شعور کا نشان نہیں اور پھر ایسا باشعور نکلا کہ دنیا بھر پر فوقیت لے گیا۔ نوری ملائکہ پر فائق ہوا اور ناری جنا۔ّت پر غالب آگیا، محض علم کے کمال سے۔
انسان کی کائنات سے بازی لے جانے کا سبب: تو علم کا ان گندے مادّوں اور کثیف جسموں میں اُتار لینا کمال نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اور اس عجیب و غریب کمال سے اگر وہ ساری کائنات سے بازی لے جائے تو اس تأمل کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
پس ملائکہ میں اگر علم آتا ہے تو یہ ان کا طبعی تقاضا ہے اور ان کا علم اُن کے اندرون سے ہے اور اندرون سے رہتا ہے۔ اس لیے پھیل نہیں سکتا۔ جتنا ہے اُتنا ہی رہے گا، لیکن انسان مجاہدے سے علم حاصل کرتا ہے اور جو چیز اس کے اندر نہیں ہے وہ باہر سے لاتا ہے اور اسے علم حاصل کرنے کے لیے مشقت و مجاہدے کے ساتھ کتنے ہی راستے تحصیلِ علم کے لیے طے کرنے پڑتے ہیں اور کتنی ہی منزلوں سے گزر کر وہ علم کے مختلف درجات و مراتب اور علمی مقامات تک پہنچتا ہے۔ اس لیے اس کا علم پھیلتا ہے، اس میں تد۔ّبر و ۔ّتفکر شامل ہوتا ہے۔ جس سے من بھر علم دس من ہو کر نمایاں ہوتا ہے۔
ملائکہ کا علم محدود قسم کا علم ہے جس میں پھیلاؤ نہیں اور انسان کا علم تد۔ّبر وتفقّہ لیے ہوئے ہوتا ہے جس میں پھیلاؤ ہوتا ہے، یعنی فرشتے کو اگر چار مسئلے معلوم ہیں تو وہ چار کے چار ہی رہیں گے۔ اور انسان کو چار مسئلے معلوم ہوجائیں تو وہ تد۔ّبر و اجتہاد کے ذریعے ان چار میں دس بیس اور مسائل ملا کر نئے نئے علوم نکال لیتا ہے۔ اس لیے ملائکہ نے بہ مقابلۂ آدم صفائی سے خود اقرار کرلیا تھا:
{سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاط}1
انسانی علم میں تفقّہ و اجتہاد: اور انسان کے استنباط اور اجتہاد کو اس کے خدا نے سراہا کہ
{وَاِذَا جَآء َہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی
اور جب ان لوگوں کو کسی اَمر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف، تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور