نامے رات والے ملائکہ کے حوالے کردیتے ہیں اور رات والے فرشتے صبح کی نماز کے وقت دن والوں کو چارج دے کر اُوپر چڑھتے ہیں۔ غرض دونوں وقتوں کے ملائکہ کا عروج و نزول فجر ور عصر کی نمازوں کے وقت کرلیا گیا۔ ان کے چڑھنے پر حق تعالیٰ جب دریافت فرماتے ہیں کہ ہمارے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ تو جواب میں عرض کرتے ہیں کہ
تَرَکْنَا ھُمْ وَھُمْ یُصلُّوْنَ، وَأَتَیْنَاھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ۔
جب ہم نے اُنھیں چھوڑا جب بھی نماز میں مصروف تھے اور جب ہم نے جاکر دیکھا جب بھی نماز ہی میں مشغول تھے۔
سو یہ وہی عملی جواب ہے کہ جن کے بارے میں تم ۔ُمفسد اور سفاک ہونے کے مدعی تھے۔ دیکھو! وہ رات دن کیسا مصروفِ عبادت ہے۔ یہ معاملہ روزانہ صبح اور شام ہوتا رہتا ہے۔ گویا صبح شام ملائکہ کو عملی جواب دے کر انسان کی برتری اُن پر جتائی جاتی ہے، تاکہ روزانہ ان کو عملی جواب ملتا رہے اور وہ انسان کی فضیلت اور اس کی خلافت کے معترف ہوتے رہیں۔ پھر نہ صرف علم و عمل ہی انسان کا فرشتوں سے بالاو برتر ہے بلکہ احوال و کیفیات بھی دیکھی جائیں جو قربِ الٰہی سے اُسے حاصل ہوتی ہیں، سو وہ بھی احوالِ ملائکہ سے بالاو برتر ہیں۔ آخر جو احوال کیفیات انبیا اور اولیاء اللہ پر طاری ہوتی ہیں، وہ فرشتوں پر نہیں آسکتیں۔ کیوں کہ نہ ملائکہ علم و عمل کے ان میدانوں سے گزرتے ہیں جس سے انسان گزرتا ہے، نہ ان پر وہ کیفیات عشق و محبت طاری ہوتی ہیں جو انسان پر ہوتی ہیں اور جب علم، عمل، حال، سب ہی میں انسان ملائکہ سے فائق ہے تو انسان ہی کا حق تھا کہ اُسے نیابت کی نعمت سے نوازا جائے اور اپنا نائب بنایا جائے کہ بنائے خلافت یہی دو چیزیں تھیں۔ یعنی علمِ خداوندی اور اخلاقِ خداوندی۔ وہ دونوں جب اس میں علی وجہ الاتم ثابت ہوتے ہیں تو خلافت بھی علی وجہ الاتم اس میں آسکتی تھی۔
تکمیلِ خلافت کا مقام: البتہ یہ ضرور ہے کہ تکمیلِ خلافت دنیا میں نہیں ہوتی بلکہ آخرت میں ہوگی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بنائے خلافت جب کہ علم کامل اور عمل کامل ہے تو یہ علم و عمل جب