سردی میں پانی سے وضو کرکے اور اُوپر سے اپنا گھر چھوڑ کر خدا کے گھر کی طرف دوڑتا ہے اور سجدوں میں لگتا ہے۔ نفس اُسے آمادہ کرتا ہے کہ نرم نرم بستر سے نہ اُٹھے۔ ہاتھ پیر کو وضو کے پانی سے ٹھنڈا نہ کرے۔ سرد ہواؤں میں ۔ُسکڑتا ہوا مسجد کی طرف نہ جائے۔
مگر وہ ان ساری طبعی خواہشات پر لات ماکر محض اپنے مالک کی رضا کے لیے جاتا ہے اور مسجد میں پہنچ کر خداوندِ کریم کے حکم کی تعمیل دل و جان سے کرتا ہے۔ تو یہ مخالفتِ نفس ملائکہ میں کہاں؟ اور یہ نفس ۔ُکشی اور جہادِ نفس ملائکہ کو کہاں میسر؟ کہ وہاں نہ نفس امارہ ہے نہ ہوائے نفس ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے اور جہاد کرکے نفس کو پچھاڑا جائے۔ اس کا مطلب ملائکہ کی توہین نہیں ہے (العیاذ باللہ)۔ وہ اللہ کے مقد۔ّس بندے ہیں {بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَO}1 وہ اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرماں بردار بندے ہیں جن سے کبھی بھی گناہ و معصیت کا صدور ممکن نہیں۔
{لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَO}2
ان کی تو ہین کفر ہے اور ان پر ایمان لا نا واجب ہے۔ یہ صرف بیانِ حال ہے کہ ان کی عبادت بلا مزاحمتِ نفس ہے۔
انسان کی عبادت میں مزاحمتِ نفس ہے: اور انسان کی عبادت میں نفس سے پوری مزاحمت و مخالفت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرنا کمال نہیں بلکہ خلافِ طبیعت کرنا کمال ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسان کی طبیعت اس کی متحمل نہیں کہ اس میں علم آئے، بلکہ جہالت اس کی طبیعت کا تقاضا ہے۔ اس کی جبلت میں جہل ہے، علم نہیں۔ کوئی انسان ماں کے پیٹ سے ہنر لے کر نہیں آتا۔ محنت و ریاضت سے ہنر پیدا کرتا ہے۔
طبیعت کو مار کر علم حاصل کرتا ہے جو عجیب بھی ہے اور کمال بھی۔ کمال اس لیے ہے کہ مجاہدے سے اُسے حاصل کیا، جس سے اس کے اندرونی قویٰ کی قوّت اور کار گزاری نمایاں ہوتی ہے۔ اور عجیب اس لیے ہے کہ وہ انسان جو ایک گندے قطرے سے بنایا گیا ہے اور جماد لایعقل مادّہ( نطفہ) سے تیار ہوا۔ نہ نور سے بنا، نہ نار سے، بلکہ پامال خاک سے، جس میں