پھرنے کے راستے رکھے اور فرمایا:
اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو مثل فرش کے بنایا، تاکہ تم اس کے کھلے رستوں میں چلو۔
کائنات کا مقصدِ تخلیق: غرض یہ کائنات ایک عظیم تربلڈنگ اور رفیع الشان قصر کی حیثیت سے تیار فرمائی، جس میں کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہنے سہنے، سونے جاگنے اور کام کاج کرنے کے سارے سامان فراہم فرمائے۔ اس کائنات کی یہ ساخت اور بناوٹ کا یہ خاص انداز پکارپکار کر زبانِ حال سے بتلا رہا ہے کہ ضروریاتِ زندگی سے یہ لبریز مکان کس ضرورت مند مکین کے لیے بنا یا گیا ہے، خود مقصود نہیں ہے، یعنی اس میں کسی کو بسانا مقصود ہے، محض مکان بنا نا مقصود نہیں اور بلاشبہ کسی ایسے مکین کو آباد کرنا مقصود ہے جو اِن سامانوں کا حاجت مند بھی ہو، اور اُس میں ان سا مانوں کے استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہو، تاکہ یہ سارے سامان ٹھکانے لگیں اور اس مکین سے اس مکان کی آبادی اور زینت ہو۔ کیوںکہ مکان مکین کے بغیر ویرانہ، وحشت کدہ اور بے رونق ہوتا ہے۔ سو اس عالم میں ارادی کاروبار اور اختیاری تصر۔ّفات دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بلڈنگ میں بسنے والی ذی شعور اور حساس مخلوق جو اس کائنات کو استعمال کرسکتی ہیں، چار ہی قسم کی ہیں۔
ذی شعور مخلوقات: ایک حیوانات ہیں، جن میںسینکڑوں انواع گھوڑا، گدھا، بیل، بکری، طوطا، مینا، شیر، بھیڑیا، سانپ، بچھو۔ّ ، چرند، پرند اور درند وغیرہ ہیں۔ دوسرے جنا۔ّت ہیں، جو آنکھوں سے نظر نہیں آتے مگر آثار سے سمجھ میں آتے ہیں، اور بلحاظِ نسل مختلف قبائل اور خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ تیسرے ملائکہ ہیں، جو نوری ہونے کے سبب لطیف اور نادیدہ ہیں، مگر اپنے آثار کے لحاظ سے مثل دیدہ ہیں۔ اور نر مادہ ہونے اور نسل کشی سے ۔َبری ہیں۔ اور چوتھے بنی نوع انسان ہیں، جو زمین کے ہر خطہ میں بسے ہوئے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ یہی چار مخلوقات ہیں جو اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے اندر احساس و شعور رکھتی ہیں اور اس کا ئناتی