ہیں تم نہیں جانتے۔ جس سے ملائکہ خاموش ہوگئے اور پھر حکیمانہ جواب دیا کہ آدم ؑ کو اَسما کی تعلیم دے کر ملائکہ کو چیلنج کیا کہ ذرا تم اشیائے کائنات کے نام تو بتائو؟ وہ نہ بتاسکے تو آدم ؑ سے فرمایا کہ تم بتائو؟ انھوں نے تمام نام گنادیے۔ تو بتلادیا گیا کہ علم کا ابتدائی مرحلہ علمِ اَسما ہے۔ جب اسی میں تم انسان سے بازی نہ لے جاسکے تو اَسما کے بعد صفاتِ اشیا، پھر خواصِ اشیا، پھر حقائقِ اشیا وغیرہ کے علوم میں تم ان سے کب بازی لے جا سکو گے۔ اسی لیے مستحقِ خلافت انسان ہی ہے۔ رہا عملی میدان، تو اس میں ملائکہ نے نوعِ انسانی کی مذمت کی تھی کہ وہ خون ریز ہوگا، مفسد ہوگا۔ تو قدم قدم پر حق تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے اعمال اوّل تو ملائکہ ہی سے لکھواتے ہیں۔
بارگاہِ الٰہی سے قولی و عملی جواب: تاکہ قیامت تک اُن کے اس شبہ کا عملی جواب ہوتا رہے اور وہ انسان کی نیکی پر گواہ بنتے رہیں اور ساتھ ہی حدیث میں آیا ہے کہ جب کہیں مجلسِ وعظ و نصیحت وغیرہ منعقد ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے اس مجلس پر نازل ہوتے ہیں جو اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ جب یہ مجلسِ خیر ختم ہوتی ہے تو وہ فرشتے آسمانوں میں چڑھتے ہیں اور اُنھیں حق تعالیٰ سے قرب ہوتاہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: تم کہاں گئے تھے؟ عرض کرتے ہیں کہ آپ کے بندوں کی مجلس میں۔ فرماتے ہیں: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں دیکھا؟ عرض کرتے ہیں کہ آپ کی یاد میں مصروف تھے۔ آپ کی جنت کے طالب تھے اور جہنم سے خائف تھے۔ فرماتے ہیں: کیا انھوں نے جنت و دوزخ کو دیکھا ہے؟عرض کرتے ہیں: دیکھا تو نہیں، انبیا سے سن کر ایمان لائے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر جنت ونار دیکھ لیں تو کیا کریں؟ عرض کرتے ہیں کہ اگر دیکھ پائیں تو سوائے جنت مانگنے اور دوزخ سے پناہ مانگنے کے اُنھیں کوئی کام ہی نہ رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم گواہ ہوجائو کہ میں نے ان سب کو بخش دیا جو اس مجلس میں حاضر تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بخشنا تھا تو ان اربوں کھربوں فرشتوں کے نازل فرمانے اور اُنھیں آسمان پرچڑھا کر ان سے پوچھنے اور اُنھیں گواہ بناکر مغفرت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے بغیر بھی مغفرت فرماسکتے تھے۔ پھر یہ کہ ایسی مجلسیں