انسان اُنھیں پا بندِ شریعت بنا یا گیا۔
جنات میں نبوّت نہ رکھنے کی وجہ: بہ الفاظِ دیگر ان میں نبوّت نہیں رکھی گئی، وجہ یہ ہے کہ جیسے ملائکہ میں خیر کا غلبہ ہے اور شر۔ّ کالعدم ہے، جنا۔ّت میں شر۔ّ کا غلبہ ہے اور خیر کالعدم ہے اور نبوّت کے لیے غلبۂ خیر ہی نہیں خیرِ محض کی ضرورت تھی، ورنہ بشر کے ہوتے ہوئے بد فہمی یا بدعملی کی وجہ سے شرائع پر عمل اور ان کی تبلیغ دونوں غیر ما مون ہو تیں اور صحیح دین مخاطبوں کو نہ پہنچ سکتا۔ اس لیے اُنھیں تابعِ انسان بنایا گیا، تاکہ اس کی شریعت سے وہ علم و عمل کی خطاؤں سے بچنا سیکھیں۔ اس لیے جو انبیا انسانوں میں مبعوث ہوئے ان ہی کی اطاعت ان پر لازم کی گئی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو تو خطاب ہی نہیں کیا، ملائکہ کو خطاب کیا مگر غیر تکلیفی اور جنا۔ّت کو خطاب تخلیقی کیا مگر خطابِ بالا مستقلاً نہیں فرمایا۔
انسان کو مستقلاً خطاب: اور انسانوں کو تکلیفِ شرعی بھی دی اور مستقلاً خطاب بھی فرمایا۔ یعنی اپنی وحی کے ذریعے خود اُن سے کلام فرمایا۔ اُن میں نبی اور رسول بنائے۔ کبھی براہِ راست خود خطاب فرمایا۔ جیسے حضرت موسیٰ ؑ سے ۔ُطور پر اور نبی کریم ﷺ سے شبِ معراج میں اور کبھی بہ زبانِ ۔َملکی خطاب فرمایا۔ پھر فرشتہ کبھی اپنی ۔َملکیت پر رہتااور انبیا بشریت سے ۔َملکیت کی طرف منتقل ہو کر فرشتے سے ملتے اور کبھی فرشتہ اپنی صورتِ ۔َملکی کو چھوڑ کر صورتِ انسانی میں آتا اور انبیا بشری چولا میں اُسے دیکھتے، جس کو قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
{وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ}1
اور کسی بشر کی حالتِ موجودہ میں یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر تین طریق سے: یا تو الہام سے یا حجاب کے باہر سے یا کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے، پیغام پہنچا دیتا ہے۔
پہلی صورت فرشتہ کے قلب پر وار د ہونے کی ہے جس میں وہ اپنی اَصلیت پر رہتا ہے، لیکن